Jannat Se Nikale Hue Log (2)
جنت سے نکالے ہوئے لوگ (2)
ایک دن میں نے حسیب سے اس کے متعلق پوچھا بھی مگر وہ کہنے لگے بھئ تمہیں کیا سب کے متعلق تجسس ہوجا تا ہے؟ ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔ یہاں کون ہے جس کے مسائل نہیں؟ بات ان کی بھی باون تولے پاو رتی سچی تھی۔ یہاں ہر شخص اپنی صلیب خود اٹھاتا ہے، اپنے آنسو خودپونچھتا ہے اور " میں خیریت سے ہوں " لکھ کر منی آڈر یا ڈرافٹ کے ساتھ خط ارسال کر دیتا ہے۔ گھر والوں کو بھی منی آڈر کی زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ باقی باتیں اضافی ہیں۔ ضرورت کی عفریت نے بہت کچھ نگل لیا ہے، پیار اور قرار قصہ پارینہ ہوئے۔
اب بیشتر دل کی جگہ کیلکولیٹر اور جزبات اور ضروریات کی مول تول ہی ہے۔ جانے ہم لوگ بدل گئے ہیں یا وقت؟ پر بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ایسا عظیم نقصان ہو گیا ہےجس کی تلافی بھی ممکن نہیں۔ آج کل حسینہ بہت سنجیدہ اور کچھ رنجیدہ سی لگ رہی تھی۔ ایک دو دفعہ میں نے پوچھا بھی کہ کیا بات ہے؟ سب خیریت تو ہے؟ آج کل روپالی کی نہ تصویر دکھاتی ہو، نہ اس کی کوئی بات بتا رہی ہو؟ بس یہی کہتی، " نا آپا آمی بھالو، تمی چینتا کورونا۔ " (نہیں، آپا ہم خیریت سے ہیں آپ فکر مت کیجیے۔) بات آئی گئی ہو گئی، مگر اس کا کام پر دھیان نہیں تھا۔
وہ بہت جان مار کر صفائی کرنے کی عادی تھی مگر اب صفائی بھی بس کام چلاؤ تھی اور بے دھیانی میں استری کرتے ہوئے اس نے میرے عبایا کی آستین بھی جلا دی تھی۔ پھر تین دن حسینہ غائب ہو گئی۔ نہ کوئی اطلاع نہ میسج۔ یا خدا! ایسی غیرذمہ دار تو وہ کبھی نہ تھی۔ فون کا بھی کوئی جواب نہیں۔ بلڈنگ کے چوکیدار سے پوچھا کہ اس کے ساتھ اگر کوئی دوسری ماسی آتی ہو تو اس سے حسینہ کی خیر خبر لے۔ خدا جانے میں اس کا ایڈرس اور شناختی کارڈ کی کاپی کہاں رکھ کر بھول گئی تھی۔
رات کھانے کے بعد دل جمعی سے ڈھونڈا تو شکر ہے کہ فلیٹ کے ایگریمنٹ کی فائل میں اس کے گھر کا پتہ بھی مل گیا۔ کل ویسے بھی جمعرات ہے سو میں نے پکا ارادہ باندھا کہ اسکول سے وآپسی پر اس کی خیریت لیتی آؤں گی۔ اس کی کھولی آسانی سے مل گئی۔ وہ اور دو اور ماسیاں مل کر شئیر کرتی تھیں اس ایک کمرے کو۔ اسی کی ساتھی نے دروازہ کھولا اور مجھے اندر لے آئی۔ عجیب یاست بھرا تاریک سا کمرہ اور اس میں ٹمٹماتا ہوا ایک مدقوق بلب۔ حسینہ زمین پر بچھے گدے پر لیٹی تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ" آپا تم کیوں بےبی کو لیکر آ گئی؟ میں کل پرسو سے کام پر آ زائے گی۔
"میں نے پوچھا آخر ہوا کیا ہے؟ نہ کوئی میسج، نہ اطلاع، نہ تم فون اٹھاتی ہو۔ میں نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تو وہ ٹھنڈی برف تھی چہرہ بھی پیلا پھٹک۔ عجب مردہ سی حالت۔ میرا تو اسے دیکھ کے جی ہی الٹ گیا۔ کیا بیمار ہو؟ گھر میں تو سب خیریت ہے نا؟ میرے بہترے سوال پر بھی بس ایک چپ۔ آپا آپ جاو، ہم کل کام پہ آ زائے گی۔ چلو ٹھیک ہے میں چلتی ہوں، اپنا خیال رکھنا۔ گھر آ کر میں نے حسیب کو کچھ نہیں بتایا کہ میرے غیر ذمہ دارانہ رویہ پر ان کا لیکچر شروع ہو جاتا، کیوں نور کو لیکر گئی، کچھ ہو جاتا تو؟ میرا سر ویسے ہی درد سے پھٹ رہا تھا۔
ایک تو یہ حسیب بھی کسی کسی وقت زندگی سے بے زار کر دیتے تھے۔ ان کی زبان کے آگے خندق تھی اور وہ بلا کے چٹورے بھی۔ مجھے یاد ہے نور چھ ماہ کی تھی۔ اس دن اس کی طبیعت بھی زرا خراب تھی۔ اسے ڈے کیر میں چھوڑتے ہوئے میں نے اس کی نینی کو بتا دیا تھا۔ اس نے نور کو بغور دیکھا اور کہا کہ آج تو ٹھیک ہے لیکن اگر کل بھی طبیعت ٹھیک نہ ہوئی تو اس کو ڈے کیر مت لانا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ کیا کیا جائے کہ وہ دن ہی کچھ اوکھا تھا۔
ایک ٹیچر نہیں آئیں سو ان کے دونوں پریڈ بھی میرے سر پڑ گئے۔ کوآرڈینیٹر نے بلا کر لیسن پلان میں میری ایک غلطی کی نشان دہی بھی کر دی تھی اور اس تمام بھاگ ڈوڑ میں لنچ بھی نصیب نہیں ہواتھا۔ سب مل ملا کر نتیجہ شدید سر درد اور طبیعت میں بے زاری و چڑچڑاپن۔ گھر پہنچی تو نور بےچین، روئے جائے تو بس روئے جائے۔ پیٹ کی مالش بھی کر دی، اسپنج باتھ بھی دے کر دیکھ لیا۔ الٹا لیٹا کر ہلکے ہاتھوں سے مالش کر کے پیٹھ تھپتھپاتی رہی۔ سارے ٹوٹکے آزما لیے۔
بڑی مشکلوں سے شام چھ بجے اس کی طبیعت کچھ بحال ہوئی اور وہ دودھ پی کر سو گئی۔ میں بھی وہیں آڑی ترچھی کب بےسدھ ہوئی خبر ہی نہیں۔ آنکھ حسیب کے جھنجھوڑنے پر کھلی۔ کیا نشہ وشہ کرنے لگی ہو؟ کب سے اٹھا رہا ہوں۔ پہلے تو کچھ سمجھ ہی میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے؟ یہ دن ہے کہ رات؟ ابھی انہیں تفصیل بتانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ کہنے لگے، جلدی سے کھانا لگاو سخت بھوک لگی ہے۔ آج دن میں باس سے منہ ماری ہو گئی اور اس چکر میں لنچ بھی گیا۔ میں نے کہا کھانا تو پکایا ہی نہیں ہے۔ نور کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور میں اسی کے ساتھ لگی رہی۔ جب وہ سوئی تو میری بھی آنکھ لگ گئی۔
یہ سنتے ہی حسیب آپے سے باہر ہو گئے۔ کیا بدسلیقہ عورت ہے۔ انسان آرام کے لئے کماتا ہے اور یہاں آرام تو دور کی بات وقت پر کھانا بھی نصیب نہیں ہے۔ گدھے کی طرح کام کرو اور مہارانی صاحبہ پلنگ توڑ رہیں ہیں۔ میں تو بے یقینی سے انہیں دیکھتی رہ گئی۔ جب ان کی بک بک میں وقفہ آیا تو میں نے کہا کہ کھانا آڈر کر دیجیے، یہ کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں ہے۔ ہاں میں تو درخت سے درہم توڑ رہا ہوں نا؟ تم بیٹھی اڑاتی رہو۔ اس قدر فضول اور واہیات بولے اس دن حسیب کہ میں تو دنگ رہ گئی۔ یقیناً یہ کوئی اور شخص تھا حسیب تو نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ کھانا آڈر نہیں ہو گا، تم ہی کو پکانا ہے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر پکانا ہے۔ اس تمام جھک جھک بک بک میں نور نے اٹھ کر پھر رونا شروع کر دیا۔ میں نے نور کو وہیں بستر پر روتا چھوڑا اور کچن کی راہ لی۔ جلدی جلدی پلاو اور چکن پکایا۔ کمرے سے وقفے وقفے سے نور کے رونے کی آوازیں آتیں رہیں اور ٹی وی کا والیوم فل بلاسٹ پر تھا۔ اس شخص کی بےحسی اور اپنی بےبسی نے بلبلا کر رکھ دیا۔ کھانا ٹیبل پر لگا کر نور کو اٹھایا، معصوم بچی سسکیاں لے رہی تھی۔ میرے دل نے حسیب کے لیے نفرت کی ایک شدید لہر محسوس کی۔
نور کو فیڈ کرا کر کوٹ میں لیٹایا۔ میں باتھ روم میں کپڑے سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی اور باتھ روم کا ہر نل کھول دیا۔ دل بھر کر رو لی، مگر نہ دل ہلکا ہوا نہ غبار نکلا ہاں البتہ سر کے درد میں ضرور افاقہ ہوا۔ توہین کے احساس نے جھلسا کے رکھ دیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد حسیب کا موڈ با لکل نارمل تھا۔ اس شخص کے مزاج کی افتادی نے مجھے حیران کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرا بھی دیا تھا۔ کھانا سمیٹ کر فرج میں رکھا۔ خود میں اتنا غم و غصہ کھا چکی تھی کہ نہ کھانا کھانے کی گنجائش تھی اور نہ خواہش۔