Hurera Se Hooria Tak (2)
ہُریرہ سے حوریہ تک (2)
میں کام کے غرض سے نکلا تھا چوں کہ قریب ہی جانا تھا سو پیدل ہی چل پڑا۔ یہ بلونگڑا مجھے ڈرا سہما سڑک کنارے ملا۔ کہیں کسی ٹائر تلے کچلا نہ جائے، اس چلتے میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر یہ میرے ہاتھوں پر کھرونچیں ڈالتا نکل بھاگا۔ بس پھر یہ بلونگڑا آگے آگے اور میں اُسے بچانے کے چکر میں پیچھے پیچھے بھاگتا پھرا۔ آخر کار یہاں پہنچ کر میکنک صاحب اور میں، ہم دونوں مل کر اسے گھیرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب دیکھیے ذرا کیسے آسودگی سے بیٹھا اپنی صفائی میں مصروف ہے۔ مجھے تو تھکا مارا نا ہنجار نے۔
انہوں نے چہکتے لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔
تعارف ہونے پر پتہ چلا کہ موصوف مصنف ہیں اور "مواقع کی سرزمین" یعنی امریکہ سے اپنی جنم بھومی کی یاترا پر آئے ہیں۔
شمشاد نے بتایا کہ اس کا استاد بڑا بادشاہ آدمی ہے۔ ابھی اپ دیکھیے گا نا خالہ! بارہ بجتے ہی محلے کے سارے کتے بلی یہاں جمع ہو جائیں گے۔ استاد سب کو چھیچڑا اور ڈبل روٹی کھلاتا ہے۔
بڑا دیالو ہے تمہارا استاد، اس کے بچے نہیں ہیں کیا؟
لے استاد شادی بنائے گا تو بچے ہوں گے نا!
شمشاد نے ہنستے ہوئے کہا۔
ویسے اچھا ہی ہے کہ استاد شادی نہیں کرتا کیا فائدہ بھُکڑ کی فوج ظفر موج جمع کرنے کا۔ اب تو کھانے کو اناج بہت ہی کم اور کھانے والے منہ زیادہ ہیں۔
اس کی آواز میں بڑی تلخی تھی۔
میں نے غور سے اس چھوٹے سقراط کو دیکھا۔ واقعی غریبی بچوں کا بچپنا ہی چھین لیتی ہے۔
اتنے میں میکینک صاحب بھی گاڑی سمیت آ موجود ہوئے۔ کہنے لگے خالہ ڈیڑھ دو گھنٹے کا کام ہے، آپ کا ادھر کوئی رشتہ دار ہے تو ان کے کنے ہو لو۔
میں نے کہا میرا تو یہاں کوئی بھی نہیں اگر آپ کے لیے مسئلہ نہ ہو تو میں یہیں ورکشاپ میں بیٹھ کر انتظار کر لوں۔
لیو! ہمیں کائے کے ٹینشن خالہ، جم جم بیٹھو۔
اس نے گاڑی کا بونٹ کھولتے ہوئے خوش خلقی سے کہا۔
بلونگڑا اب کھا پی کر اوندھے پڑے ٹائر کی گولائی میں دنیا سے بےخبر سو رہا تھا۔
اس بیچ میری مصنف صاحب سے بھی گفتگو چلتی رہی۔ آدرشی آدمی تو تھے ہی ساتھ میں ہم وطنوں کا درد بھی رکھتے تھے۔ انہیں جب پتہ چلا کہ میں عرصے دراز سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ خانماں برباد بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی ہنر، شعور اور آگہی تاکہ ان کا مستقبل تاریک نہ ہو اور وہ تا عمر سڑکوں کے راہی نہ رہیں۔
ان کی خواہش جان کر جی شاد ہوا۔
میں نے انہیں بتایا کہ میرا بڑا بیٹا جو انجینیرنگ کے آخری سال میں ہے اپنے تین دوستوں کے ساتھ مل کر ہفتے میں تین دن گلشن اقبال کے پل کے نیچے بے گھر بچوں کو پڑھاتا ہے اور کتاب اور کاپی پنسل بھی ان بچوں کو وہ چاروں لڑکے ہی فراہم کرتے ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ اب تک ان کا ایک بھی شاگرد میدان چھوڑ کر نہیں بھاگا۔ میں نے انہیں اپنے بیٹے منیب کا ٹیلی فون نمبر دیا اور ان کا بھی اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ ان سے ملاقات باعث تقویت کہ اب ایسا درد دل رکھنے والے بہت کمیاب۔
میری نظر ورک شاپ کے باہر تھڑے پر پڑی تو دیکھا کہ وہاں بلیاں اور کتے جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ پانچ بلیاں اور تین کتے مگر کمال کی بات کہ نہ کتے بلیوں پر جھپٹے اور نہ ہی بلیاں، کتوں پر غرائیں۔ ایک مکمل مفاہمت کی فضا تھی۔ میں نے ایک نظر اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالی جہان دونوں سوئیاں اتحاد کی مثال بنی بارہ کے ہندسے پر مجتمع تھیں۔ میں نے ستائشی لہجے میں مکینک کبیر سے کہا "بھئی تمہارے مہمان تو وقت کے بڑے پابند ہیں"۔
ہاں نا خالہ بھلا پاپی پیٹ سے زیادہ پابند کون؟
اس نے جانے کس کونے سے ایک شاپر نکالا اور دکان کے تھڑے پر سب کا برابر برابر حصہ لگا دیا پھر ایک مٹی کے کونڈے میں کولر کا سارا ٹھنڈا پانی الٹ دیا۔
میں کبیر کی سخاوت اور نرم دلی پر ششدر تھی۔ ان بے زبانوں کا اتنا خیال! بہت بڑی بات تھی، یقیناً اس میں انسانیت کا جوہر ہے۔
خالی کولر اس نے پاس کھڑے شمشاد کو پکڑایا اور کہا کہ واپسی پر ملباری کو تین کڑک چائے ڈبل ملائی مار کے بولتے آنا۔
نہیں نہیں میرے لیے چائے مت منگواؤ کبیر، میں چائے نہیں پیتی۔
کرانچی کی ہو کر چائے نئی پیتی خالہ؟
یہاں تو لوگ پیاس نہیں بلکہ چیاس بجھاتے ہیں۔ اس کی حیرت دیدنی تھی۔
میں صرف ناشتے پر ایک کپ چائے پیتی ہوں اور بس۔
کیا خالہ پھر تو آپ کرانچی کی نہ ہوئیں۔ اپن تو جب تک چائے کا چار پانچ کپ نہ پیوں کام میں مزہ ہی نہیں آتا۔
اس نے دوبارہ گاڑی کے کل پرزوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔
مہنگائی کے اس سونامی میں اب تم بھی چائے چھوڑ ہی دو کبیر، کیا رکھا ہے چائے میں؟
خالہ غربت میں تو پہلے ہی آٹا گیلا ہے۔ اب مشکل سے مہینے کے پہلے جمعہ، ایک پلیٹ مرغی کا سالن کھاتا ہوں، بڑے کے گوشت کا مزہ تو اب بھول ہی چکا ہوں۔ سبزیاں پہلے ہی پہنچ سے باہر، لے دے کر داڑھ گیلی کرنے کو دال ہی بچتی ہے۔ اب کیا کیا چھوڑوں خالہ! سچی کبھی کبھی تو جی کرتا ہے دنیا ہی چھوڑ دوں۔ یقین کرو خالہ میں تو اب تندور سے روٹی بھی نہیں لیتا بلکہ خود ہی گھر میں کچی پکی بنا لیتا ہوں۔
مجھے آج کے دیوداس کے مہنگائی پر کیے گئے تبصرے پر بے ساختہ ہنسی آ گئی۔
تو شادی کر لو نا کبیر گھر کا سکھ تو ملے گا۔
میرے اندر کی مشورہ خانم نے بے اختیار مشورہ داغ دیا۔
شادی! کیسی بات کر رہی ہو خالہ اس ہوش ربا مہنگائی میں شادی؟
مجھے ماننا پڑا کہ اس کا استہزائی سوال ناروا نہ تھا۔
خالہ اب لڑکیوں کے خواب بہت اونچے ہیں اور ٹٹ پونجئے کو کوئی نہیں پوچھتی۔
اس نے گاڑی کا بونٹ بند کرتے ہوئے صافی سے ہاتھ پونچھے۔
نہیں اب ایسا بھی کال نہیں، میری نظر میں ایک بہت سلجھی ہوئی لڑکی ہے۔
کہو تو بات کرکے دیکھوں؟
ارے خالہ نیکی اور پوچھ پوچھ اگرایسا ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔
اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
ایک بھلی مانس ہیں بوا چمن آرا، لوگوں کے کپڑے سی کر عزت کی روٹی کھاتی ہیں۔ بوا کی نواسی ہے حوریہ۔ وہ جب دو سال کی تھی تو اس کے ماں باپ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ نانی ہی نے اس کی پرورش کی ہے۔ لڑکی میٹرک پاس اور سلائی کٹائی میں ماہر ہے۔ شکلاً اچھی اور سب سے عمدہ بات یہ کہ منکسرالمزاج۔ بوا چوں کہ چراغ سحری ہیں سو چاہتی ہیں کہ کوئی نیک بر جڑے تو نواسی کے فرض سے سبکدوش ہو کر بہشت میں اپنی بیٹی سے سرخرو ہو کر ملیں۔ یقین مانو کبیر تمہارے مہمانوں کو دیکھ کر مجھے بے ساختہ حوریہ یاد آئی تھی کہ وہ اپنی سوکھی روٹی میں بھی گلی کے بھوکے جانوروں کو شامل رکھتی ہے۔ تم دونوں خدا ترس اور محنتی ہو، میرے خیال میں اچھی زندگی گزار لو گے۔
خالہ اگر ایسی بات ہے تو میری طرف سے پکی پکی ہاں ہے۔
سوچ لو کبیر! لڑکی صرف تن کے کپڑوں کے ساتھ اور نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں شربت کے گلاس پر۔
میں نے سنجیدگی سے کہا۔
خالہ اس کڑکی میں خدا ترس اور وہ بھی منکسرالمزاج لڑکی مل رہی ہے اور کیا چاہیے۔
اس نے ممنون لہجے میں میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا۔
مجھے تو کبیر، حوریہ کے لیے بہت مناسب لگا۔ خوش شکل، محنتی اور سب سے بڑی بات کہ محبتی۔ زندگی میں قدر دان ساتھی ہی اہم باقی رہا مال منال تو وقت لگتا ہے لیکن محنت اور لگن ہو تو سب ممکن۔
میں نے کبیر سے کہا، ذرا منہ ہاتھ دھو لو تو تمہاری تصویر اتار لوں۔
شمشاد یہ سنتے ہی لپکتا ہوا آیا اور کبیر کو کھینچتا ہوا گیراج سے باہر لے گیا۔
کوئی بیس منٹ بعد دونوں لوٹے اور کبیر دھج دیکھنے والی تھی۔
اچھا لگ رہا ہے نا استاد خالہ!
شمشاد میاں نے پر جوش انداز میں پوچھا؟
ہاں ماشاءاللہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔
خالہ میں استاد کو سلیم ہئیر ڈریسر کے پاس لے گیا تھا۔ بر دکھوئے کی تصویر اترنی ہے کوئی مذاق تھوڑی نا ہے۔
شمشاد نے ہنستے ہوئے تفصیل بتائی۔
ابھی تو تم بڑے جوش میں ہو، کہاں تو کہ رہے تھے کہ اچھا ہے استاد شادی نہیں بناتا۔
میں نے شمشاد کو یاد دلایا۔
پر وہ چھٹکا بھی بلا کا چلتا پرزہ کہنے لگا ارے خالہ اپن کے نصیب میں تو دولھا بننا ہے نہیں، کم از کم استاد کی شادی پر شہ بالا ہی صحیح۔
میں نے کبیر کی تین چار تصاویر اتاری اور کبیر میاں کا یہ حال کے شرم سے بے حال، میں نے اپنی ہنسی کو بمشکل قابو کرتے ہوئے کبیر سے کہا کہ جتنا تم شرما رہے ہو، اتنا تو اب لڑکیاں بھی نہیں شرماتیں۔
دوسرے دن اتوار تھا سو میں اور عباس ناشتہ کرتے ہی ترنت بوا کے گھر چلے گئے۔
بوا کو کبیر کی ابتدائی معلومات قابل قبول لگیں تو مزید کی کھوج کی گئی۔ بات جب بننی ہو تو سرا سے سرا ملتا چلا جاتا ہے۔ عباس کی برانچ کے چوکیدار کا سسرال کبیر کے محلے میں تھا۔ اس سے پوچھ تاچھ کی اور پھر ہم دونوں ایک رات کبیر کے گھر جا پہنچے۔ جب ہر طرح تسلی کر لی تو کبیر کو بوا کے گھر بلوایا۔
بس پھر دو ہفتے کے اندر اندر ساری بات طے پا گئی اور ہم نے اپنے گھر سے عزت اور مان کے ساتھ حوریہ کو کبیر کے ساتھ رخصت کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی دیکھیے کہ گیراج میں بیٹھے بیٹھے دو زندگیوں کا اتنا اہم فیصلہ ہوگیا۔
سو دوستو کوئی حادثہ اتفاقی نہیں۔