Hum Tore Aangane Ki Chirya (2)
ہم تورے آنگنے کی چڑیا (2)
ظہیر اب بالکل بھی دل دار نہیں رہے تھے بلکہ میرا نمکین روپ جس کے پہلے وہ والا و شیدا تھے اچانک سے ان کو پھیکا اور بےکشش لگنے لگا تھا۔ ساس کو اب تک پوتا نہ کھلا سکنے کا دکھ لگ گیا۔ میں جتنا ظہیر کو منانے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی ماش کے آٹے کی طرح اینٹھتے۔ میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھی کہ ہر سانس کے ساتھ ظہیر کی تسبیح جاری تھی۔ مجھ سے ایک بدترین غلطی یہ ہوئی کہ میں نے ایک نہیں کئ بار ظہیر کے سامنے اپنی شدید محبت کا اعتراف کیا اور ان کو برملا یہ بتایا کہ میں ان کے بغیر ایک پل نہیں رہ سکتی۔ شاید میرا یہی اعتراف ظہیر کو مغرور اور مجھے مجبور کرتا چلا گیا۔
اچانک ظہیر نے لگی بندھی نوکری چھوڑ دی کہ مجھ سے چاکری کی جی حضوری نہیں ہوتی میں تو اپنا بزنس کروں گا۔ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ ظاہر ہے میرا باپ(ڈیڈی) مہیا کرے گا۔ میرے ڈیڈی سے پیسے نہ مانگے کی ضد پر ظہیر پرتشد ہو گئے۔ گالی گلوچ اور تھپڑانے کے بعد ایک بار پھر مجھے ڈیڈی کی دہلیز پر پٹخ گئے۔ اب گھر میں بھی سب اس برتاؤ اور طور طریقے سے عاجز آ گئے تھے۔ بڑے بھیا نے خلع کی تجویز دی مگر میں ہتھے سے اکھڑ گئ، ظہیر کے بغیر میرے جینے کا جواز ہی نہیں تھا۔ ڈیڈی نے میرے سسرال پر دباؤ ڈالنے کے لیے میرے نان نفقے کا کیس کر دیا اور اس بات کو لیکرجھگڑا بہت بڑھ گیا۔
ظہیر نے کہا کہ اب تو نہ وہ طلاق دیں گے اور نہ ہی بسائیں گے۔ میں تڑپتی بلکتی رہ گئی مگر ظہیر ذرا نہ پسیجے۔ جب میں نے بہت اللہ رسولؐ کا واسطہ دیا تو کہنے لگے تمہیں بھی اسی اللہ کا واسطہ ہے، میری جان چھوڑ دو میں تم سے بے زار ہوں مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا کسی بھی قیمت میں نہیں رہنا۔ بس پھر میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں ڈیڈی کو بولی ڈیڈی آپ کیس واپس لے لو۔ میں ظہیر سے بہت محبت کرتی ہوں اور اس کو پریشان نہیں دیکھ سکتی۔ ڈیڈی نے کہا صبر سے بیٹھو جب گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتیں ہیں مگر میں جان چکی تھی کہ اب آگے کچھ نہیں ہے۔ بس اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہی تو ہے کہ " وہ زندگی سے نکل گیا"مگر اس جملے کی اذیت شناس وہی ہے جو اس درد کو سہتا ہے، مانو جانکنی کا عذاب جھیلتا ہے۔ میں اپنے دل کو بہت سمجھاتی تھی کہ ایک شخص تمہیں نہیں چاہتا تو اس کا پیچھا چھوڑ دو مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔ رات بھی کھانے کے بعد ڈیڈی اور بھیا نے مجھ پر خلع کے لیے بہت دباؤ ڈالا مگر میرا دل اس بات کے لیے تیار ہی نہ ہوتا تھا میں کیسے اپنے نام کے ساتھ لگے ظہیر کے نام کو الگ کرتی، کیسے دل میں بسی اس کی تصویر کھرچتی؟
آج اتوار ہے، سو ابھی سبھی گھر والے سو رہے ہیں میرا دل اتنا گھبرایا کہ میں سویرے سویرے ہی آٹو میں بیٹھ کر دریا کنارے چلی آئی۔ ابھی یہاں رش نہیں تھا بہت کم لوگ تھے۔ میں نے ظہیر کو فون کیا خلاف توقع اس نے اٹھا بھی لیا۔ میں نے ایک بار پھر بےشرم بن کر اس کی بہت منت سماجت کی، شادی کے ابتدائی دنوں کی محبت اور وعدے قسمیں یاد دلائیں مگر سب بےسود۔ آخری حربے کے طور پر میں نے کہا کہ میں تمہارے بغیر جی نہیں سکتی سو میں پانی میں ڈوب کر اپنی جان دے دوں گی۔ اس بےدرد نے ہنستے ہوئے کہا ضرور ضرور ڈوبتے ہوئے اپنی وڈیو مجھے ضرور بھیجنا، اب خدارا میری جان چھوڑ ہی دو۔
بس پھر جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہو، دل میں ایک سناٹا اتر آیا۔ میں دریا کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ ڈیڈی کا فون آ گیا۔ تم کہاں ہو صبح صبح؟ بس ڈیڈی دریا کے پاس ہوں۔ آپ کیس واپس لے لیجیے میں بہت تھک گئ ہوں، ڈیڈی میں لڑنے کے لیے نہیں محبت کرنے کے لے پیدا ہوئی تھی اور میں نے اپنے سب رشتوں سے بہت محبت کی اور پائی بھی بہت، بس یہاں سسرال میں نصیب سے مار کھا گئ۔ جانے کہاں غلطی ہوئی؟ کیا کمی رہ گئ مجھ سے؟ بس اب میں جا رہی ہوں۔ مجھے معاف کر دیجیے گا اور ظہیر اور اس کے گھر والوں کو اس معاملے میں مت گھسیٹیے گا۔ اللہ حافظ۔
بیٹی بیٹی زینت زینت بات سنو۔
میں اٹھ ہی رہی تھی کہ غبارے بیچتی لڑکی نے میرے پاس آ کر ٹائم پوچھا۔ میں نے بتایا کہ ساڑھے گیارہ ہو رہے ہیں۔
کہنے لگی آج ابھی تک اتنا سناٹا ہے لوگ باگ کہاں ہیں؟ آپ کیوں اکیلی آ گئ باجی؟
میں نے جواب ٹال دیا اور پوچھا تم کیا کرتی ہو؟
بڑے فخر سے بولی دن بھر پارکوں اور سڑکوں پر غبارے، قلماں اور پن بیچتی ہوں اور رات کو جھوپڑ پٹی اسکول میں پڑھتی بھی ہوں۔ ماں باپ نئ ہیں نا، مئی اور میرا چھوٹا بھائی یتیم ہوں اس نے انگلی سے قریبی درخت کی طرف اشارہ کیا جس کے سائے تلے گڈری میں لپٹا ایک پانچ چھ سال کا بچہ سو رہا تھا۔ ہم دونوں خالہ پاشا کی ڈیوڑھی رہتیو، مئی مگر اپنائیچ کھاتی کماتی ہوں، جندگی میرے کو بوت پٹخنی دئیے مگر میں اس کی آنکھا میں آنکھا ڈال کو بولی کہ جا رے، جندگی تو میرے کو نئ ہرا سکتی۔ مئ خود سے اچ خسم کھائی کہ میں پڑھ لکھ کو اپنی اور اپنے بھائی کی تخدیرا بدل ڈالوں گی اور دیکھنا باجی ایسا ئیچ ہوئے گا۔
آدمی کو بس ہار نہیں ماننے کا، جیسے بھی حالات ہوں آدمی اللہ پر بھروسہ کر کے چلتا ئیچ رہے تو پھر منزلہ بھی مل ئیچ جاتیو۔ اس سے بات ہی کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی میں سمجھی ڈیڈی کا فون ہو گا مگر اسکرین پر ظہیر کا نمبر تھا۔ میں نے بےتابی سے اٹھایا۔ ظہیر نے پوچھا " کیا ہوا ابھی تک زندہ ہو؟" میں تو کب سے تمہاری خودکشی کی وڈیو کا منتظر ہوں۔ کر بھی چکو تاکہ خس کم جہاں پاک۔ ساتھ ہی اس کی دل میں ترازو ہوتی زہریلی ہنسی۔ بس اسی پل ایسا لگا جیسے کسی نے میرے دل سے اچانک ہی اس کی محبت کھینچ کے نکال پھیکی ہو۔ دل میں سناٹا ضرور تھا پر اب دل شانت تھا۔
میں نے فون آف کیا اور دیکھا وہ غبارے والی لڑکی اپنے بھائی کو بڑے پیار سے کچھ کھلا رہی تھی۔ بہادر اور باہمت لڑکی کیسا سبق دے گئ مجھے۔ وہ تو میرے لیے خضر ثابت ہوئی واقعی کوئی کوئی لمحہ آگہی کا ہوتا ہے۔ زینت زینت، ڈیڈی اور بڑے بھائی بےتابی سے مجھے پکارتے ہوئے شتابی سے میری طرف دوڑے چلے آ رہے تھے۔ ڈیڈی نے مجھے روتے ہوئے گلے لگایا اور کہا کہ " یہ کیا کرنے چلی تھی بےوقوف! "
اور میں روتی آنکھوں اور مسکراتے لبوں سے سوچ رہی تھی کہ میں بھی کیسی نادان ہوں جو اس ناقدرے اور بے وفا کے پیچھے اپنے اتنے محبتی رشتے اور یہ انمول زندگی ختم کرنے چلی تھی۔