Hum Tore Aangane Ki Chirya (1)
ہم تورے آنگنے کی چڑیا (1)
آج گھر میں مایوں کی تقریب ہے۔ پورا گھر گیندے اور چنبیلی کی خوشبو سے مہک رہا ہے اور گیندے کے زعفرانی رنگ نے ماحول میں تابناکی بھر دی ہے۔ سچ پوچھو تو مجھ سے اپنی خوشیاں سنبھالی نہیں جا رہیں۔ کون مان سکتا ہے کہ کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب بھی سچ ہوتے ہیں؟
میں فائنل امتحانات سے نمٹ کر فراغت کے بھرپور دن گذار رہی تھی اور کچن میں اپنے جوہر آزمانے کے ساتھ ساتھ خود کو مہان انٹیریر ڈیزائنر ثابت کرنے پر کمر بستہ بھی۔ انہیں گرم دنوں کی سہ پہر پسینے میں شرابور وہ مشاطہ کے ساتھ آن وارد ہوئیں اور پھر بات آگے چل نکلی۔ بات نے ہچکولے تب لیے جب جوڑے گھوڑے کی رقم ڈیڈی کے بساط سے باہر ٹھہری۔ وہ لوگ پلٹ گئے اور میں دل مسوس کر رہ گئ کہ تصویر والا لڑکا تصویر سے نکل کر میرے تصور و تخیل کو مجسم کر چکا تھا اور اب دل نابکار چوبیسو گھنٹے اسی کی راگنی چھیڑے رہتا تھا۔
کسی سے کچھ کہنا محال تھا اور چپ رہنا دشوار تر۔ پھر ایک ہی صورت سمجھ میں آئی کہ اس سے کیوں نہ مانگا جائے جو کل کا مالک ہے؟ بس چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اللہ سے ایک ہی سوال تھا اور وہ سوال تین مہینوں کے اندر ہی باریاب ہوا اور ظہیر کی اماں پھر سے دستِ سوال لیے ڈیڈی کی چوکھٹ پر تھیں اور میں من چاہی مراد کے حصول پر سجدہ ریز۔ گھر مہمانوں سے بھرا تھا۔ آنگن میں خوب صورت منڈپ تیار اور منڈپ کی بیچوں بیچ بچھی رنگیلی چوکی پر مجھے بیٹھا کر چھوٹی خالہ نے ابٹن مل مل کر میرے ملیح حسن کو سنہرا روپ دے دیا تھا۔ سب کے خیال میں مجھ پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔
ہائے کاش! اس لمحے ظہیر مجھے دیکھ سکتے۔ چوکی پر امی اور ڈیڈی کو بیٹھا کر آہر کی رسم کی جارہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ ظریف جملوں کہ پھوار بھی۔ ہر طرف خوشیاں اور قہقہے تھے رت جگا کی جاگ تھی اورسہاگ کے رسیلے گیتوں کے ساتھ ملیدہ اور دیگر پکوان تیار کئے جا رہے تھے۔ ساچق کی رسم میں میری بڑی نند، میرا بہت ہی خوب صورت شہانہ جوڑا لیکر آئیں تھیں۔ مجھے تو سارا سامان بہت بھایا تھا۔ جوڑا، زیور، چپل اور سنگھار کا سامان سب بہت اچھا تھا مگر بڑی خالہ اور چھوٹی چچی جانے کیوں سامان کو دیکھ دیکھ کر منہ بنا رہی تھیں بقول ان دونوں کے جوڑا دلہے والوں کی حیثیت سے کم تر تھا پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
شادی جوڑے جامے سے تھوڑی نہ کی جاتی ہے۔ من پسند بندہ مل رہا ہے اور کیا چاہیے؟ دلہے کے گھر چھوٹی ممانی، نزہت اور دیگر کزنز ظہیر کے نکاح کے جوڑے، جوتے، صابن دانی اور عطر پھول اور مٹھائیاں اور ڈرائی فروٹ لے کرگئے تھے۔ بارات اپنے وقت پر پہنچی اور اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ نکاح ہوتے ہی ساس نے کالی پوت کا لچھا بسم اللہ کہ کر میرے گلے میں ڈال دیا تھا۔ میں اپنی شادی کا کھانا کچھ تو میک اپ کے خراب ہونے کے ڈر سے اور کچھ مارے گھبراہٹ کے ڈھنگ سے کھا بھی نہ سکی تھی پر نزہت بتا رہی تھی کہ ڈیڈی نے کھانا بہت شاندار بنوایا تھا اور باراتیوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔
ساڑھے گیارہ بجے رخصتی ہوئی۔ میری سسرال زیادہ دور نہیں تھی بیس پچیس منٹ میں گھر پہنچ گئے پھر منہ دکھائی کی رسم اور ساتھ ہی کھیر کھلائی بھی ہوئی اور ہنسی مزاق چلتا رہا۔ کہیں جا کے آدھی رات کو بڑی نند کو میری تھکن کا خیال آیا اور بڑی نند اور چھوٹی نند مجھے حجلہء عروسی پہنچا گئ۔ ظہیر دیر سے آئے پر ان کی وارفتگی نے تاخیر کا شکوہ دھو ڈالا۔ انہوں نے میرے روپ سروپ کو بہت سراہا اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں وعدے ہوئے۔ وہ کوئی طلسمی رات تھی جو اپنی ہوشربائی اور فسوں کاری کے ساتھ پل میں تمام ہوئی۔ اگلی صبح میری زندگی کی خوب صورت ترین صبح تھی۔
دس بجے بھائی اور نزہت زبردست کچھڑی لیکر آئے تھے مگر نندوئی کو سامان کم لگا۔ لو بھلا سب کچھ تو تھا۔ نہاری، نان، حلوہ پوری، قیمہ، کچھڑی، تل اور کھوپرے کی چٹنی، ڈبل کا میٹھا، فروٹ اور مٹھائی۔ سب کچھ تھا اور بہت تھا۔ ولیمے کے بعد گھر مہمانوں سے خالی ہونے لگا۔ جمعگی کے مکمل ہونے سے پہلے ہی کچن میرے حوالے کر دیا گیا۔ خیر اس کی شکایت نہیں کہ کیا پانچ جمعہ؟ کیا ایک جمعہ؟ جب اپنا گھر ہو تو تکلف کیا۔
بس ایک شکایت تھی کہ ڈیڈی نے سارا جہیز ان کی ڈیمانڈ کے مطابق ہی دیا تھا بلکہ چار مینار کے دائیں طرف والے بازار میں موجود میاں محمد میر فتح خان کی دکان ہی سے ساس کی حسب منشا ساری پہناؤنیاں لیں تھیں اور حمزہ فرنیچر سے ظہیر کا پسند کردہ فرنیچر مول لیا تھا۔ پر اب جانے کیا بات تھی کہ میرے سسرال والوں کو ہر چیز بےمول اور گھٹیا لگ رہی تھی؟ پہلا اعتراض نندوئی نے شادی کے دوسرے دن کچھڑی(دلہن کا ناشتا) پر اٹھایا تھا اور اب تو ہر رات کھانے کی میز پر یہی شکایت نامہ لونگ پلے کی صورت بجتا رہتا تھا۔ پہلے پہل تو ظہیر خاموش رہے پر اب انہیں بھی اپنے جوڑے، گھڑی اور اسکوٹر عیب زدہ لگنے لگے تھے۔
میں دل ہی دل میں ڈر رہی تھی اور اسی چلتے باورچی خانے میں اپنی پھرتیاں اور سب کی خدمت گزاریوں میں اضافہ کر دیا تھا مگر کسی کا مزاج ہی نہیں مل رہا تھا۔ اسی چخ چخ میں شادی کی پہلی سالگرہ بھی آ گئ اور میرے مائیکے والے کیک اور تحائف سے لدے پھندے آئے مگر گھر میں کسی نے ان سے سیدھے منہ بات تک نہ کی، خاطر داری تو دور کی بات ہے۔ میں نے ابھی تک اپنے میکے میں "سب اچھا ہے" ہی رپورٹ کی تھی سو میرے سسرال کا رویہ میرے گھر والوں کے لیے بہت حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ بھی تھا۔
میری چھوٹی نند کا رشتہ کیا طے ہوا میری تو گویا جان ہی ضق میں آ گئ۔ روز ایک ہی بات دہرائی جانے لگی کہ جہیز کم ہے اپنے باپ سے ڈیڑھ لاکھ روپے لیکر آؤ۔ میں جانتی تھی ڈیڈی اب ایک روپیہ بھی نہیں دے سکتے کیونکہ چھوٹے بھائی ناصر کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہونا تھا۔ اب ان کے پاس جو تھوڑا بہت جمع جتھا تھا وہ ناصر کی پڑھائی اور نزہت کے جہیز کے لیے تھا۔ اگلی صبح دفتر کے لیے نکلتے ہوئے ظہیر نے کہا چلو اور محض تن کے کپڑوں کے ساتھ مجھے میرے گھر کے دروازے پر اتار دیا کہ روپے مل جائیں تو بتا دینا آ کر لے جاؤں گا۔
میں حق دق دروازے پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی، ایسا تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کو خدا سے اس قدر منت ترلے سے مانگا تھا وہ اتنا کٹھور بھی ہو سکتا ہے۔ گھر میں سب ہی پریشان ہو گئے مگر حل کسی کے پاس نہ تھا۔ میں روز دن میں سیکڑوں بار ظہیر کو فون کرتی، میسج کرتی مگر ظہیر اب میرے من دیوتا کے بجائے سنگی مجسمے میں ڈھل چکے تھے۔ ڈیڈی نے بیچ میں خاندان کے معززین کو ڈالا اور بہت مشکل سے بات ایک لاکھ پر منتج ہوئی۔ میں سسرال واپس آ گئ مگر دل بجھ سا گیا میں نزہت سے آنکھ نہ ملا پاتی تھی کہ یہ اسی کے جہیز کے روپے تھے۔