Azad (3)
آزاد (3)
اب مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اپنے سینتالیس اور اکہتر کے شہیدوں پر روؤں یا ملک کے دو لخت ہونے پر بین ڈالو۔ ہمارے خاندان اور جان پہچان والوں کو ملا کر تینتیس لوگ پاکستان کی محبت میں شہید کر دئیے گئے تھے۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد اماں ابا ایک دم سے بوڑھا گئے تھے۔
زندگی اتنی پیاری چیز ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت ہماری ساری حسیات زندگی کی بقا میں مصروف کار تھی۔ ہم لوگ پناہ کی تلاش میں سرگرداں کبھی محمد پور کی گلیوں میں خوار ہوتے تو کبھی میر پور دس نمبر عارضی پڑاؤ ڈالتے۔ اُس سال جاڑا بھی تو غضب کا پڑ رہا تھا، تن پہ نا کافی کپڑا اور اس پہ مستزاد دہشت و بے پناہی۔ ابھی ہم لوگوں کےنصیب میں مزید سختیاں رقم تھیں سو میرا مراد، میرا پیارا چھوٹا بھائی نمونیا کا شکار ہوا۔ اس بھگڈر میں کہاں کا کفن دفن اور کیسی نماز جنازہ۔ رات کی تاریکی میں، میں نے محمد پور کے قبرستان میں ایک آدھی ادھوری قبر کھودی اور ہم باپ بیٹے نے جنازہ پڑھ کر مراد کو اس کے خالق کے حوالے کر دیا۔ اب جانے ابا بے حس ہوگئے تھے یا ان کے آنسوؤں کے سوتے ہی خشک ہو چکے تھے؟ انہوں نے بنا ایک آنسو بہائے اپنے لاڈلے، گیارہ سالہ مراد کو قبر میں اتار دیا اور اماں نے اسی خاموشی کے ساتھ یہ غم اپنے سینے میں اتار لیا۔
پاکستانی فوج، جنگی قیدی بن کر بھارت جا چکی تھی اور ہم بے خانماں و برباد لوگ مکتی باہنی اور عام بنگالیوں کے رحم و کرم پر تھے۔ وہ ایسا دور تھا جس میں فرشتوں کے پر بھی جلتے تھے۔ ایسی بربریت کے ہلاکو اور چنگیز خان بھی شرما جائیں۔ خدا کرے کہ تاریخ ایسے انسانیت سوز لمحات کی شاہد اب کبھی بھی نہ ہو جس میں قاتل و مقتول دونوں ہی ایک خدا کے دعوے دار اور ایک ہی رسول کے ماننے والے بھی۔
پھر ابنِ مریم آگے آئے اور ہم بے پناہوں کو پناہ دی۔ بنگلہ دیش میں جگہ جگہ ریڈ کراس کے کیمپ کھل گئے۔ یہ وہ جائے پناہ تھی جس کی چار دیواری کے اندر زندگی بدترین تھی، بےبسی سے سسکتی تھی مگر محفوظ تھی۔
سقوط مشرقی پاکستان کے وقت میں ایک سترہ سالہ نوجوان تھا جس کے کندھوں پر مٹی کے بت جیسے باپ، دق زدہ ماں اور ہراساں بہن کی ذمہ داریاں تھیں۔ ان دنوں میں سب سے بے زار اور اپنے آپ سے بھی بے گانہ تھا۔ کیمپ کی اذیت ناک زندگی جس نے عزت نفس کا جنازہ نکال دیا تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی جیے جانے کی سزا جاری تھی۔ اماں خوش قسمت تھیں کہ جلدی اس جہنم سے مکتی پا گئیں، انہیں پرانی چادر ہی کا سہی کفن تو ملا اور کیمپ میں دو تین لوگ ڈولا اٹھانے کو بھی مل گئے۔ ابا زندہ لاش تھے مگر تابندہ کی حفاظت کا خیال انہیں مرنے نہیں دیتا اور زندگی جینے کی طاقت ان کے جگر میں نہ تھی۔ اب احساس ہوتا تھا کہ انسان کتنا بے مایا ہے، نہ جینے پہ اختیار اور نہ مرنے پہ قادر۔
کیمپ میں آئے دن خبر گرم رہتی کہ پاکستان سے اپنے ہم وطنوں کو لینے کے لیے جہاز آنے والا ہے مگر وہ آنے والا جہاز بھی امریکہ کا ساتواں بیڑا ہی رہا نہ کل آیا نہ آج۔ بنا آس کے رہنا شاید نسبتاً آسان مگر امید تو انسان کو جاں کنی میں مبتلا رکھتی ہے۔ روز پاکستان جانے کی امید بندھتی اور روز ہی دل فگار ہوتا۔ ہم سب کا سوتے جاگتے کا ایک ہی خواب تھا، سر زمینِ پاکستان۔ پاکستان جو بہت بہت دور تھا، اتنی دور کہ وہاں تک تو اب ہمارے خوابوں کی رسائی بھی نہ تھی۔ ہم سب جیسے پھانسی گھاٹ کے قیدی تھے مگر ان جتنے خوش نصیب ہر گز نہیں کہ وہ کم از کم اپنی متوقع موت سے تو آگاہ ہوتے ہیں۔ کیمپ میں اذیت کے دن اور عذاب کی راتیں گزرتی رہیں یہاں تک کے تین ہزار چھ سو پینسٹھ دن یعنی دس سال گزر گئے۔ انتظار، انتظار ہی رہا۔ کیمپ کی کسمپرسی کی زندگی جہاں کھانے کو دانہ کم، پینے کو صاف پانی میسر نہیں۔ جہاں ضرورت حوائج سے فراغت کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگانی پڑے وہاں بھلا تعلیم کو کون سوچتا۔ یہ بد قسمتی کی انتہا نہیں تو اور کیا تھی کہ تعلیم کا دروازہ ان سپوتوں پر بند تھا جن کے آبا و اجداد نے دنیا کو نالندہ جیسی یونیورسٹی دی تھی۔
میں، میر پور میں ایک کھڈی پر کام کرنے لگا۔ اس معمولی نوکری کے لیے بھی جتنے پاپڑ بیلنے پڑے وہ ہم ہی لوگ جانتے ہیں۔ ابا کو اصل فکر تابندہ کی شادی کی تھی کہ تابندہ تئیس سال کی ہو چکی تھی اور اکہرا بر جڑتا نہ تھا۔ جتنے بھی رشتے آئے وہ گولٹ یا ادلے بدلے کے تھے اور میں شادی کرکے مزید اسیروں کی پیدائش کے حق میں نہ تھا۔ میری طبیعت میں بلا کا غصہ تھا مگر حقیقتاً یہ میری بے بسی کی انتہا تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس بے سروسامانی میں اپنی آنے والی اولاد کو بھی بے شناخت رکھوں، بے زمین و بے وطن رکھوں پر ابا بھی تو مجبور تھے۔
کیسا ظلم کہ جس کو رب نے رحمت بنا کر بھیجا تھا وہ ان کے سینے کا بوجھ بنی بیٹھی تھی اور وہ جلد از جلد یہ بوجھ کسی مضبوط شانوں پر منتقل کرنے کے خواہاں۔ جانے یہ ابا کی گریہ نیم شب کی مستجابی تھی یا وقت کا لکھا، بہرحال یہ بیل منڈھے چڑھی۔ میں اور تابندہ شادی شدہ ہوئے۔ تابندہ اس کھولی سے نکل کر جنیوا کیمپ کی دوسری کھولی میں چلی گئی اور ٹھیک اسی طرح میری بیوی عائشہ بھی اپنی بد حال کھولی سے رخصت ہو کر ہماری بوسیدہ کھولی میں آ گئی۔ زندگی میں بھلا کیا بدلاؤ آنا تھا؟
وہ پہلے بھی ایڑیاں رگڑ رہی تھی اور اب بھی مشق ستم جاری رہا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ابا نے میری اگلی نسل دیکھ لی اور ابا دادا بن گئے اور اس ادھوری خوشی کے بعد انہوں نے اسی بے وطنی میں اپنی منتظر آنکھیں موند لیں۔
میں بائی برتھ پاکستانی ہوں گو کہ میں محض سترہ برس ہی پاکستانی رہا اس کے بعد سے تو وطن کے ہوتے ہوئے بھی بے وطن ہوں۔ بے زمین، محصور، پناہ گیر، یہ وہ سارے کٹھور اور دل خراش الفاظ ہیں جو اب میرے اور میرے بیٹے سید سلطان اور میرے پوتے سید کامل کی پہچان ہیں۔
سلطان بھی پاکستانی ہے مگر میرا دس سالہ پوتا سید کامل منحرف ہو چکا ہے۔ کہتا ہے دادا اتنی شدید وفاداری کا کیا صلہ دیا آپ کو آپ کے پاکستان نے؟
آپ کی پانچ نسلیں پاکستانی ہیں۔ اپ کے دادا اور ابا نے بہار سے ہجرت کی اور مشرقی پاکستان میں بسے۔ یہاں آپ کے ابا فقط چوبیس سال پاکستانی شہری رہے پھر بنگلہ دیش کیمپ میں بے وطن مرے۔ دادا آپ کی پاکستانی شہریت محض سترہ برس رہی پھر آپ جنیوا کیمپ میں محصورین بنگلہ دیش کہلائے۔ ابا اور میں بے وطنی میں پیدا ہوئے۔ آخر آپ اپنے ملک کو اپنی وفاداری کی اور کتنی قیمت چکائیں گے؟
سچ تو یہ ہے کہ میں اپنے کم سن پوتے کی باتوں سے لاجواب ہو جاتا ہوں مگر میرا جواب اب بھی یہی ہوتا ہے کہ بیٹا میرا پاکستان تو اب بھی اپنے ترک شدہ بیٹوں کو سینے سے لگانے کے لیے ترستا ہے مگر اس مملکتِ خداداد پر کم ظرفوں اور احسان فراموشوں کا قبضہ ہے۔
میری ڈوبتی نبضوں میں میرے پوتے کامل کے سوال کی دھمک گونج رہی ہے
"دادا آپ پاکستان کو اپنی وفاداری کی اور کتنی قیمت چکائیں گے؟"
میں یہی سوال لیے اپنے رب ذوالجلال کے دربار میں حاضر ہوں۔