Aye Umer e Rawan Zara Aahista
اے عمرِ رواں ذرا آہستہ

یونیورسٹی میں چھٹیاں تھی سو میں بھی آج کی نسل کہ مروجہ طریقوں پر دن کو رات اور رات کو دن سمان گزار رہا تھا۔ بند دروازے کی درز سے یہ کیسی اشتہا انگیز خوشبوئیں در آئیں تھیں جنہوں نے نہ صرف مجھے اٹھا کر بیٹھا دیا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں جنموں سے بھوکا ہوں۔ یہ بہت کچھ یاد دلاتی ہوئی بھولی بسری خوشبوئیں تھیں۔
میں آڑی ترچھی چپل پیر میں اُڑیسے، نچلی منزل میں دہرے باورچی خانے کی اوُر لپکا۔ "دہرا باورچی خانہ" ہاں، آج کل کی دہری اور اوپری زندگیوں ہی کی طرح، گھروں میں بھی ایک ہائی اینڈ نمائشی کچن اور اس کے پیچھے اصلی باورچی خانے بنائے جانے لگے ہیں۔ بس سامنے کچھ اور اصل کچھ کہ یہی مروجہ۔
یہ انگریزوں کی زبان بھی خوب کہ باورچی خانے کے لیے فقط تین حروف "کچن" اور بس۔ اب اس بھاگتے دوڑتے زمانے میں کیسے ظہرانہ، عشائیہ یا سلفچی، آفتابہ و بدنا یاد ہیں۔ یہ الفاظ بھی متروک اور یہ ظروف بھی شاید عجائب گھروں کی زینت۔ سچی بات کہ اب نہ تو بدنا باقی اور نہ ہی بیت الخلا۔ سیدھے سبھاؤ ٹوائلٹ، ریسٹ روم یا پھر پاؤڈر روم جیسا فینسی اور دھانسو نام اور ان میں لگے مسلم شاورز۔ اب بدنا یا لوٹا بیتے سمے کی کہانی ہوئے۔
جو ہوتے آج جون ایلیا، بھئی وہی جو پاکستان کو علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت کہا کرتے تھے۔ وہ تو یقیناً بوکھلا جاتے کہ آج کل کے لونڈوں لپاڑیوں کے ہاتھوں اردو کا جو حشر ہے گویا
زبانِ یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
ہائے! لگتا ہے بھوکے پیٹ کی وجہ سے گیس دماغ پر چڑھ گئی ہے۔ جانے کیا کچھ بے تکا سوچے چلا جا رہا ہوں۔ کچن میں اوپری کام کی ملازمہ مشتری اور ہمارے اسٹیٹس کہ فتح نشان، سر پر سفید لمبی ٹوپی مڑھے ہمارے آفیشل شیف یعنی سلمان خان، بے زار سی شکلیں بنائے ڈبل ڈور فرج سے لگے کھڑے تھے۔ میری آنکھیں کچن میں متحرک شخصیت کو دیکھ کر حیرت سے ابل پڑیں۔
د ا دی آپ!
اوہ! یہ بچھڑی خوشبوئیں میرے بچپن کی سنگی ہی تو تھیں۔ دادی آپ کچن میں کیوں؟
کیا مطلب آپ باورچی خانے میں کیوں؟
تم بھول گئے کیا؟
او مائی گاڈ دادی! نہیں نہیں بھلا میں کیسے بھول سکتا ہوں؟ آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ چہ چہ اپنے لاڈلے پوتے سے ایسی بدگمانی؟
لو اور سنو! میرے ہی ہاتھوں میں پلے بڑھے اور ہمیں ہی چلانے کی کوششیں! یعنی میری ہی بلی اور ہم ہی پہ میاؤں۔ چلو سکون سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ کہ ناشتے کا وقت تو کب کا گزر چکا۔
دادی نے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کچے گوشت کی لذیذ ترین بریانی کی پلیٹ میری سامنے رکھتے ہوئے مشتری کو گھورا۔ بوکھلائی مشتری نے ان کی گھوری کے معنی سمجھتے ہوئے جلدی سے میرے آگے رائتہ، سلاد اور چٹنی چن دی۔ سلمان خان نے شہیدوں میں شمار ہونے کے لیے فرج سے پانی کی ٹھنڈی بوتل نکال کر گلاس سمیت میرے آگے دھرے مگر دادی جان نے سوجی کا حلوہ بھنتے ہوئے ہنکارا بھرا اور شیف صاحب نے گھبرا کر جلدی سے میرے آگے سے بوتل اور گلاس اٹھا لیا۔ دراصل دادی حکیم لقمان کی جائز جانشین سو کھانے کے پندرہ بیس منٹ بعد تک پانی پینے کو قطعاً ناجائز مانتی تھیں۔
بریانی کے پہلے لقمے نے جسم کے ہر ہر خلیے کو مسحور و متحرک کر دیا۔ ہائے کیا مشک بار بریانی تھی۔ واللہ! اس کے حصول کے لیے تو حیدرآباد دکن پر حملہ بھی اصولی ہوتا۔ خیر میں نے اس خیالِ فاسد پر لعنت بھیجتے ہوئے اُسے فوراً جھٹک دیا کہ میں دہن اور ذہن دونوں ہی کو پراگندہ کرنے کے حق میں نہ تھا۔ میں دادی کو داد دیتے ہوئے مزید بریانی کا سوالی ہوا مگر وہاں سے ٹھس جواب ملا کہ پھر "ان" کے ساتھ کیسے کھاؤ گے۔
یا اللہ دادی! آپ ابھی تک، "ان کے"، "کن سے" باہر نہیں نکلیں؟
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
کہ مصداق اب تو زمانہ شونو، مونو تک آ چکا ہے۔
اے نوج! جو ہم ایسے خرافات میں پڑیں۔ دادی نے بھاپ اڑاتے سنہرے سنہرے سوجی کے حلوے سے بھری تشتری میرے آگے رکھ دی۔ اب دادی کے کھانوں کی خاص بات یہ ہے کہ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ بندہ انہیں دیکھے یا کھائے؟ دادی نظر و شکم کی سیری کی یکساں قائل۔ کھاجے کی اشتہا انگیزی، ذائقے و لذت اور پیشکش، تینوں میں انہیں یکساں مہارت حاصل ہے۔
ہائے دادی! ہفتے میں ایک بار ہی کچھ پکا دیا کرو، یا چلو مہینے میں ایک بار ہی سہی پر تم نے تو قسم سے کچن ہی تیاگ دیا ہے۔ میں تو تمہارے ہاتھوں کا ذائقہ ہی بھول چکا ہوں۔
میاں! یہ ہمارے ریٹائرمنٹ کا سنہرا زمانہ ہے اور ہم اسے بھرپور انجوائے کرتے ہوئے اپنے پورشن میں بنے، منّے سے باورچی خانے میں آج بھی پوری دل جمعی سے اپنے دلارے میاں کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں۔ ویسے تمہارے باواں نے نکموں کی یہ فوج ظفر موج کاہے کو رکھ چھوڑی ہے؟ دادی نے بے زاری سے سلمان اور مشتری کو دیکھا۔ دادی کو ان کے ہاتھوں کا مغربی کھانا بالکل مرغوب نہ تھا۔ اب یہ بھی درست کہ ہمارے گھر کا مینو بڑا ہی غیر روایتی سا ہوا کرتا ہے کہ ڈیڈی شاید آج بھی ذہنی طور پر آکسفورڈ ہی میں ہیں۔
اچھا سنو تمہیں میری فہرست یاد ہے نا؟
جی دادی میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں؟
تو چلو ترنت جاؤ سب چیزیں لے کر آؤ، وہ آتے ہی ہوں گے!
شرسار سی دادی نے یہ کہتے ہوئے سلیقے سے سمٹا ہوا کچن سلمان اور مشتری کے حوالے کیا۔ ایپرن اتار کر اپنی کمر میں کھونسے ہوئے ساڑھی کے پلو کو آزاد کرتے ہوئے سہج سہج اپنے پورشن کی طرف چلی گئیں۔
میں محبت سے اپنی دھان پان سی کامنی دادی کو دیکھتا رہا۔ یہ بہتر سال کی عمر میں بھی نہ صرف چاق و چوبند بلکہ زندہ دل و بدلہ سنج بھی۔
قصہ دراصل یہ ہے کہ آج دادا جان، نمونیا کے چلتے دس دن ہسپتال میں رہنے کے بعد گھر لوٹنے والے ہیں۔ دادی نے ان کی محبت میں پرہیزی کھانوں کے ساتھ ساتھ ان کی پسندیدہ بریانی اور سوجی کا حلوہ بھی بنایا ہے۔ خدا کرے کہ دادا نوالے دو نوالے کھا سکیں۔ میرے دادا اور دادی کی محبت اتنی توانا ہے کہ مجھے انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ دادی آج بھی ان کا کھانا اپنے ہاتھ سے تیار کرتی ہیں۔ گرمیوں کی صبح، پرچھا ہونے پر یہ دونوں باغیچے میں آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے دنیا جہاں کی باتیں کرتے ہیں۔ دونوں پڑھنے کے ریسا تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ کن رس بھی۔ ان کے کمرے سے روزانہ صبح سویر راشد المشاری کی پر سوز آواز میں سورہ رحمان کی تلاوت سنائی دیتی ہے تو عصر ڈھلے بڑے غلام علی اور بیگم روشن آرا سماں باندھتے ہیں۔
دادا جو اپنے زمانے کے نامی گرامی اور جی دار بیوروکریٹ تھے، وہ اپنی ایمانداری اور شعلہ فشانی کے سبب قبل از وقت جبری ریٹائرمنٹ سے نوازے گئے۔ دادا جان بہترین سیاسی بصیرت رکھتے تھے پر اب ان کی بے زاری کا یہ عالم کہ اپنے کمرے سے ٹی وی اٹھوانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اخبارات سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ واقعی کوئی حال نہیں میرے ملک کا۔ خیر دادا جی کا کیا رونا اب تو یہ عالم کہ اگر علامہ اقبال بھی ہوتے تو اٹھوا لیے جاتے۔
نہیں منت کش تابِ شنیدن داستاں میری
خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
میں نے جلدی جلدی دادا جان کے پسندیدہ پھولوں یعنی نرگس اور ٹیوب روز کے گلدستے تیار کروائے اور دادی کے لیے بیلے کے گجرے لینا نہیں بھولا۔ دادی جان آج بھی اپنے کپاس جیسے کیس کا سنگار بیلے کے گجرے سے کرتی ہیں۔ اب تو ان کے بالوں کا جوڑا نہایت مختصر ہو چلا ہے مگر مجھے یاد ہے کہ میں بچپنے میں ان کے گھنرے بال بنانے کے چکر میں ان کے بال الجھا الجھا دیا کرتا تھا۔ دادی تو منع نہیں کرتیں البتہ دادا جان ضرور میرے ہاتھوں سے کنگھا لے لیا کرتے تھے۔ وہ دادی کے الجھے بالوں کو بڑے لگن اور پریم سے سلجھاتے اور کبھی چوٹی تو کبھی جوڑا بنایا کرتے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی بھی دادی کے بال بنا پھولوں کے دیکھے تھے۔
دادا جان گھر آئے تو ان کا کمرہ ان کے پسندیدہ پھولوں سے مہک رہا تھا۔ دادی کالے باڈر والی لال کانجی ورم کی ساڑھی اور ایک ہاتھ میں لال رنگ کی کٹ شیشے والی خاص بنگال کی چوڑیاں پہنے اپنے ہاتھوں سے اپنے "من میت" کو سوپ پلا رہیں تھیں۔ دادا محبت پاش نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے بڑی رغبت سے سوپ پیتے ہوئے ان سے ادھر ادھر کی ہلکی پھلکی باتیں کر رہے تھے۔ ان دونوں کا انہماک و انبساط دیکھ کر، ان کے کمرے سے سب ہی لوگ ایک ایک کرکے کھسک لیے۔
جانے اس کمرے میں کون سی صدی ٹھہری تھی کہ وہاں محبت کی گنگا جمنا بہتی محسوس ہو رہی تھی۔
میں سوچتا ہی رہ گیا کہ کیا ہم ATM والی نسل ایسی محبت کر بھی پائیں گی؟