Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaaz Malik
  4. Baaton Ravaiyon Aur Lehjon Ke Pathar

Baaton Ravaiyon Aur Lehjon Ke Pathar

باتوں روئیوں اور لہجوں کے پتھر

انسان قدرت کی تخلیقات میں سب سے افضل تخلیق ہے۔ جسے خالق نے فخر سے اپنے فرشتوں کے سامنے اعلیٰ اور افضل تخلیق کے طور پر پیش کیا اورتعظیمی سجدہ بھی کروایا مگر سوا شیطان ملعون کے اسے بحکم خدا سبھی نے تسلیم و رضا سے قبول کر کے سجدہ کیا، اس ایک حکم کی خلاف ورزی پر الله نے اسے اپنی بارگاہ سے بے دخل کر دیا۔

مگر شیطان نے بھی آخر انسان کو بہشت سے نکلوا کر سنگلاخ زمین پر لا کر دم لیا یوں انسان اور شیطان کی ازلی جنگ شروع ہویی جو ازل سے لے کر ابد تک رہے گی، یعنی برائی اور اچهائی زندگی کے میدان کارزار میں ہمیشہ ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں گی۔

انسان کی سرشت میں جہاں نرمی رکھی گی ہے وہیں انسان کے اندر پتھروں کی سختی بھی دکھائی دیتی ہے، انسان بہ یک وقت اچھایئوں اور براییوں کا مجموعہ بھی تصور کیا جاتا ہے جس میں خیر و شر کا عنصر ایک ساتھ پایا جاتا ہے۔

بلکل ایسے ہی جیسے پھولوں کے ساتھ کانٹوں کا تصور ہمیشہ رہتا ہے، جیسے کیچڑ میں کنول کا کھلنا، جیسے اچھے وقت کے ساتھ برے لمحوں کا چلنا۔ جیسے ہونی کے ساتھ انہونی کا تصور۔

کرہء ارض پر جنگ و جدل کا سلسلہ انسان کے قتل سے ہی شروع ھوا جسکے پیچھے بھی شیطان مردود کا ہاتھ تھا، تب سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے، کہیں حق و باطل کی جنگ تو کہیں خیر و شر نبرد آزما۔

آج کے انتہائی ترقی یافتہ معاشرے میں یہ سلسلہ عروج پر ہے قُربِ قیامت کا دور ہے جبکہ دنیا کی بساط لپیٹنے کی تییاری کی جا رہی ہے انسان ہی انسان کے ہاتھوں پا مال ہو رہا ہے شیطان کا الہ کار بن کر۔

کہیں یہ جنگ ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے تو کہیں زبانوں کے نشتر اور رویوں کے تیروں اور لہجوں کے پتھروں سے دلوں کو زخمی کرنے کا کام لیا جاتا ہے کیونکہ ہم لوگ آزاد معاشرتی نظام میں مشینوں اور ہتھیاروں کے اس جدید دور میں سانس لینے کا شعور تو بحرحال رکھتے ہیں۔

سو اپنے مہذب ہونے اور علیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ہنر کو یوں آزمانا سیکھ لیا ہے کے ہم اپنے الفاظ رویوں لہجوں اور باتوں کے سارے ہتھیاروں سے لیس ہو کر کسی بھی دوسرے انسان کے دل اور روح کو قتل کرنے کا ہنر حاصل کر بیٹھے ہیں، اور ہمارے آج کل کے اس معاشرتی نظام میں ہم اس ہنر میں اتنے مشتاق ہو چکے ہیں کہ یہ سب کرنے کے بعد بھی ہم پر کویی الزام نہیں لگتا اور ہم اپنے سفید بے داغ دامن کو لئے پھرتے ہیں۔

ہم اپنے معاشرتی نظام میں سیاست کو اس طرح رچا بسا چکے ہیں کے اس سے کنارہ کرنا اب ہمارے لئے ممکن نہیں رہا، ہر جگہ سیاستی نظام کو فروغ دے کر ہم نے اپنی زندگیوں میں سے سکوں کو بے دخل کر دیا ہے۔

گھروں کی سیاستیں، دفتروں کی سیاستیں، ہمارے زہنوں پر اثر انداز ہو کر گھروں کو تباہ اور ہمارے اندر انتشار کو فروغ دے چکّی ہے، ہم انسان اجتمایی طور پر جینا چھوڑ کر انفیرادی طور پر جینے کے خواہشمند ہو چکے ہیں، اپنےاندر لگے بیشمار انا اور میں کے بتوں کے آگے گھٹنے ٹیک کر بیٹھے رہتے ہیں۔

اسی لئے ایسے محیرالعقول واقعات رونما ہو رہے ہیں کے انسان کیا شیطان بھی انسان کی تنزلی کو دیکھ کر حیران ہے، اپنے اندر دلوں ذہنوں میں حسد بغض لالچ کے ان گنت پتھرجمع کر کے ہم خود پتھر کے ہو چکے ہیں اسی لئے جب بھی ہمیں موقع ملتا ہے ہم ایک دوسرے کی جانب لفظوں اور لہجوں رویوں کے پتھر مار کر دوسرے کو سنگسار کرنے میں ہی خوشی محسوس کرنے لگے ہیں اور پھر یوں مطمیئن ہو جاتے ہیں جیسے ہم ایک نیک کام کر رہے ہیں۔

اپنے اندر چھپے بغض اور کینے کے پتھر انسان پر نہیں شیطان پر برسا کر آے ہیں، لیکن اب بھی وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے آیئے اپنے من کی دنیا میں لگے جا بہ جا شر اور بری کے بتوں کو توڑ کر اپنے اندر نیکی سرشت کو ابھار کر اپنے اندر سے سارے پتھروں کو حوصلے ضبط کے دریا میں پھینک کر اپنے رویوں لہجوں باتوں کو شبنمی نرمی کی پوہار میں بھگو کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو سہل بنانا سیکھ لیں۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib