Simple Economy
سمپل ایکانومی
مارکیٹ ایکانومی چالیس گھروں پر مشتمل گاؤں سے سمجھیں۔ جو ڈیری پراڈکٹ دودھ، دہی، انڈے، گوشت وغیرہ اور کنک (گندم) ایکسپورٹ کرکے گھی، تیل، ڈیزل، بجلی، الیکٹرانکس اور میڈیکل ادویات امپورٹ کرتے ہیں۔ اس گاؤں کو تصور میں لائیے یہ چالیس گھروں اور چند سو افراد پر مشتمل ہے۔ اگر اس گاؤں کے لوگوں کا رہن سہن بےنیاز ہوگا اور اپنی ضرورتوں کی حد تک محنت کرکے شام کو حقہ اور گپ شپ کریں گے تو بھی ان کی زندگی نارمل گزرے گی۔
لیکن اگر ہر گھرانہ اپنی ضرورت سے زیادہ ڈیری پراڈکٹ اور فصلیں اگاتا رہے اور ایکسپورٹ بڑھانے کے لئے ٹریکٹر، فارمنگ وغیرہ کا اضافہ کرتے رہے تو اوورآل گاؤں کی صورتحال بہتر ہوتی جائے گی۔ اگر اس گاؤں کے لوگ سولر پینلز لگا کر بجلی کا استعمال کم کرتے جائیں تو ان کا پیسہ باہر نہیں جائے گا۔ اگر انہیں قدرتی وسائل جیسے نہر اور برسات بھی وقت پر ملے یا یہ تالابوں پر محنت کرکے بارش کا پانی بچا کر کم سے کم ٹیوب ویل چلا کر resource بچائیں تو ہر گھرانے کو اضافی فائدہ ہوگا۔ آہستہ آہستہ کامیاب گھرانوں کے انفراسٹرکچر میں واضح فرق آئے گا۔ یہ سادہ انکم کی ایکانومی ہے۔ اگلا سٹیپ مزید دلچسپ ہے۔
اگلے مرحلے میں اس اضافی رقم کی تقسیم کا معاملہ ہے۔ یہ اضافی منافع اگر آپ کو لگژری آئٹم کی امپورٹ، بنگلہ نما مکان، ٹائل ماربل اور مہنگے سمارٹ فون کی صورت نظر آ سکتا ہے۔ یا یہ ہو سکتا ہے کہ یہ اضافی رقم لوکل سمال انڈسٹری جیسے میٹل فرنس، ٹریکٹر پروڈکشن، سائکل مینوفیکچر و پولٹری فارمنگ کی صورت بھی نظر آ سکتی ہے۔ یہ دو طرح کی سوچ یہاں کے لوگوں میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لگژری کی طرف جانا تباہی اور سمال انڈسٹری کی طرف جانے میں گاؤں کی بھلائی ہے۔ یہ سوچ پیدا کرنے کے لئے ایجوکیشن اور ترجیحات دونوں برابر ہی شریک ہیں۔
مزید آسان کرنے کے لئے مثال دیکھیں۔
پیاز کی کھیتی کرنے والے دیہاتی کو دیکھیے۔ چالیس روپے فی کلو پیاز ہو تو ہزار کلو پیاز چالیس ہزار کی ہوگی۔ ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر چار ہزار کلو پیاز خریدی جائے گی۔ اور یہ چار ہزار کلو پیاز بیرونی دنیا کو دے کر گاؤں والا ایک آئی فون منگوا لے گا۔ اس سے گاؤں میں پیاز کی کمی پیدا ہوگی اور قیمت میں دس روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ اس آئی فون کا گاؤں کی ترقی میں کتنا کردار ہو سکتا ہے وہ آپ بہتر جان سکتے ہیں۔
اب پاکستان میں موجود آئی فونز (symbolic) کی تعداد دیکھ لیں اور سوچیں کہ یہاں آلو، پیاز، چاول، چینی کیسے مہنگی ہوئی؟ چاکلیٹ، بسکٹ، سمارٹ فون، لیپ ٹاپ، گاڑیاں، الیکٹرانکس، led وغیرہ سبھی امپورٹ آئٹم ہیں۔ ہم اس بات پہ خوش ہیں کہ پاکستان گندم کی پیداوار کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ میرے نزدیک یہ کوئی اہم بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے بھی چھٹا بڑا ملک ہے۔ جب تک یہ ہر قسم کے پراڈکٹ میں چھٹے نمبر پر نہیں آ جاتا تب تک آمدن خرچ برابر ہی نہیں ہو سکتی۔ کوئی حکومت کوئی لیڈر اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک بنیادی ترجیحات تبدیل نہ ہوں۔
آلٹو گاڑی کا نیا ماڈل وزن میں سات سو کلو ہے۔ یہ گاڑی بنانے میں مہنگا ترین آئٹم سلور (ایلومینیم) ہے۔ خام سلور آج بھی پانچ سو روپے کلو ہے۔ یعنی اس گاڑی کے بنانے پر زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین لاکھ کا خام مال لگتا ہے۔ آج یہ گاڑی تیس لاکھ کی بک رہی ہے۔ یہ اضافی چھبیس لاکھ روپے فیکٹری اور ٹیکنالوجی کی کمائی ہیں۔ جو جاپان اور چین کو جاتے ہیں۔ ہم اپنے گاؤں سے خام ایلومینیم جمع کرکے دیتے ہیں اور وہ مہینے بھر میں اس کی گاڑی بنا کر واپس کر دیتے ہیں اور اس ٹریڈ میں ہمارے گاؤں کو چھبیس لاکھ فی گاڑی کا سرمایہ دینا پڑتا ہے۔
یہ أ ہے۔ سمجھنے والے کو بہت کافی ہے۔
جو نہ سمجھنا چاہے اسے کئی گھنٹے کے لیکچر فائدہ نہیں دے سکتے۔ کچھ باتیں تشنہ رہ گئی ہیں وہ بعد میں ہوتی رہیں گی۔