Log Hamen Darate Bohat Hain
لوگ ہمیں ڈراتے بہت ہیں
انسان کو پریکٹیکل ہونا چاہئے۔ پرسوں ایک جاننے والے صاحب جن کی عمر تیس اکتیس کے آس پاس تھی، کہنے لگے کہ "دنیا میں جو کچھ بھی کر لو، آخر کار موت آنی ہے"۔ اس تازہ خبر کو سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ان کے انداز سے لگتا تھا جیسے یہ تازہ وحی ان پر ابھی ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھے بتا کر وہ میرے ساتھ بہت بڑی نیکی فرما رہے ہیں۔
وٹس ایپ میسجز میں بھی اکثر لوگ موت سے ڈراتے رہتے ہیں۔ دو تین صاحبان، جو یہ کہتے تھے کہ ہمیں اپنی اگلی سانس کا بھی نہیں معلوم کہ آئے گی یا نہیں، ان کو میں نے ان کی عمر کے مطابق دس پندرہ سال زندہ رہنے کی گارنٹی دی تھی۔ دو تین سال تو گزر چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جتنی گارنٹی میں نے دی تھی وہ اس سے زیادہ ہی جئیں گے۔
بلاوجہ کا خوف و ہراس پھیلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دادی کہتی تھیں کہ رات سونے سے پہلے یہ یہ دعا پڑھ لیا کرو کل صبح نجانے آنکھ کھلے نہ کھلے۔ تب بھی سوچتا تھا کہ اگر یہ راتوں رات مرنے کا خوف طاری نہ کیا جائے تو بھی خشوع و خضوع سے دعا کرنا ممکن ہے۔ یہ راتوں رات موت والی تھیوری سوچ کر ویسے ہی نیند اڑ جاتی ہے۔
اک پل کو مان لیتے ہیں کہ صاحبان کے پاس ہمارے موت کی پکی رپورٹ ہے کہ موت پانچ چھ دن کے فاصلے پر ہے، اور وہ ہمیں یہ بتا دیتے ہیں تو سوچیں یہ پانچ چھ آخری دن کیسے مشکل سے گزریں گے۔ آگہی کا عذاب یہی تو ہوتا ہے۔ بے فکری میں جینا اور موت جیسی خوبصورت شے کو وقت آنے پر گلے لگانے کا بھی اپنا چارم ہوتا ہے۔ جسے پہلے سے predict کر کے صاحبان بڑا ظلم کر جاتے ہیں۔
ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زندگی میں موت حاوی رہے اور موت میں زندگی ڈھونڈی جائے۔ یہ فلسفہ میرے دماغ میں نہیں سماتا۔ مجھے لگتا ہے زندگی میں زندہ رہا جائے اور موت آنے پر مر جایا جائے تو سب کچھ بہت متوازن اور خوبصورت رہے گا۔ اب شادیوں پہ نوحے اور اموات پہ شادیانے بجانا کہاں کی عقلمندی ہے۔
مرشد اقبالؒ یاد آتے ہیں۔ شعر کے لباس میں کیا خوب بات کہہ گئے۔
بانگِ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد۔