Itni Pyari Dosheeza
اتنی پیاری دوشیزہ
خبر ملی کہ آج صبح پنجاب میں جیسی ٹھنڈ پڑی ہے اس نے پچھلے پینتیس سال کا ریکارڈ توڑ دیا۔ شامت اعمال کہیے یا اتفاق سمجھیے مگر واقعہ یہی ہے کہ اس ٹھنڈ کو ہم نے ہاتھ رگڑ کر انجوائے کیا۔ آدھی رات یہی سوچ سوچ کر گزری کہ کمبل میں سوراخ کس جگہ ہے۔ تلاش بسیار کے بعد بھی ایسا کوئی شگاف نہ مل سکا۔ تسلیءِ قلب کی خاطر یہ گمان کر کے سو گئے کہ شگاف کوئی نہیں ہے اور قدرت انتقام لے رہی ہے۔ یہاں دن ایسے ہیں کہ سورج نظر نہیں آتا البتہ تارے نظر آ جاتے ہیں۔
کل رات ہیٹر کے کنارے ڈیرہ جما کر حصرت نصرت فتح سے "دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں" کا درس لیا۔ آج سوچا کہ سالِ نو کی شروعات ہے۔ کہیں روشنیوں اور چنگاریوں کا نظارہ کرنے جایا جائے۔ یہ کراچی ہوتا تو ضرور گھومتے۔ مگر یہاں تو نکلنا ہی موت کو دعوت دینا ہے۔ کراچی کے معتدل موسم نے ہمیں پلاسٹک کا بنا دیا ہے نہ گرمی برداشت ہوتی ہے نہ ہی سردی۔ کراچی نے ہمیں بہاروں اور خزاؤں سے بھی محروم کر دیا ہے مگر پھر بھی اس شہر نامدار کا مقام دل میں بلند ہے۔
قصہ ٹھنڈ کا نکلا تو کچھ لوگوں کے لہجے یاد آ گئے۔ روئیے یاد آ گئے۔ ان کے وٹس ایپ سٹیٹس آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری غلطی معاف کیجئے، سال بدل رہا ہے۔ مگر کیا انہیں اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہے؟ ایک جنرل معافی مانگنا بہت آسان ہوتا ہے مگر اپنی غلطیوں کو چن چن کر سوچا جائے تو معافی کی دشواری کا اندازہ ہوتا ہے۔
کٹھن کو سہل بنانے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے عادت بنا لیا جائے۔ معمول بن جائے تو سب کچھ خود بخود ہونے لگتا ہے۔ مسلمان کو سردی میں صبح سویرے وضو کرنے کی عادت ہے، سکھ کو ننگے پاؤں گرودوارے جانے کی عادت ہے۔ کسی عاشق کو اپنے محبوب کے لئے ساری رات جاگتے رہنے کی عادت ہے۔ معافی مانگنا بھی عادت ہے حکم چلانا بھی عادت ہے۔ معاف کرنا بھی عادت ہے۔ کچھ عرصے میں عادتیں خصلت اور پھر فطرت بن جاتیں ہیں۔ کسی انسان کی فطرت نرم کسی کی سخت ہوتی ہے۔ کوئی سرد تو کوئی گرم لہجے رکھتا ہے۔ بات فطرت سے ہوتی ہوئی دوبارہ سردی گرمی پہ آ گئی۔ ہم دسمبر سے پھر جنوری پہ پہنچ گئے۔ یہ الٹ پھیر چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا۔
معافیوں کی عادتیں ہیں۔ موسم برداشت کرنے کی عادتیں ہیں۔ سالِ نو پہ خوشی منانے کی عادتیں ہیں۔ نصرت کی آواز پہ جھومنے کی عادتیں ہیں اور ان سب کو جوڑ کر قافیہ بندی کی عادتیں ہیں۔ بقول جون ایلیا، یہ قافیہ بندی بھی یا وہ فرمائی کا سرچشمہ ہے۔ سو یہ بھی چلتا رہے گا۔ اب تو شاید اگلے سال ہی کچھ لکھا جائے گا۔ اس سال کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ پہلی سطر میں دوشیزہ کا تذکرہ ہے وہ یونہی جاڑے کا زور توڑنے کی کاوش ہے۔ آباد رہیں۔