Hayat Ki Devi
حیات کی دیوی
اس نے میرے بازو کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر میرا سینہ تھامنا چاہا تو میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ وہ میرے بستر میں لیٹی تھی اور کمینی سی شرارت اس کے چہرے پر تھی۔ میں نے کربناک آنکھوں سے اسے دیکھا، کہنے لگی میں تمہیں لینے آئی ہوں۔
وہ ایک خوش شکل موت تھی۔
میں نے اپنا آپ اس سے دور کیا۔ اس نے اپنے لمبے ہاتھوں سے میری گردن پکڑی اور میرے چہرے کے قریب آ کر ہونٹ نوچنے چاہے۔ میں نے ہتھیلی سے اسے دور کیا اور کہا مجھے حیات کی دیوی زیادہ عزیز ہے۔ میں تمہارا نہیں ہو سکتا۔ وہ ہنسی اور کہا کہ میں جس کو چوم لوں اسے میرا ہونا ہی پڑتا ہے۔ میں نے اس کے بےپناہ حسن کی تعریف کی اور اس سے بغلگیر ہونے سے معذرت کر لی۔ کہا کہ
جو زمانے کے ستم ہیں وہ زمانہ جانے
تو نے دل اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اس نے اپنے حتمی ہونے کے حوالے دئیے اور ایسی مسکراہٹ سے دئیے کہ یونان کی دیویاں شرما جائیں۔ اس نے اپنی آنکھوں اور بھنوؤں سے ایسے اشارے دئیے کہ جی جانتا ہے۔ ہم پل بھر کو بہکنے لگے تھے۔ دل ڈوبتا رہا تھا گویا پھسل کر نیچے اترتا ہو۔ مگر حیات کی دیوی چونکہ دل پر قابض تھی سو ہم نے نگاہیں پھیر لیں۔ دکھ ہوا کہ حیات کی دیوی نے اسے مجھ تک آنے کیوں دیا۔۔ دکھ ہوا کہ یہ میرے بستر میں دراز کیوں ہوئی۔
افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ اس کے ہونٹ بلا کے لذیز بھی ہیں۔ اور چوم لو تو جان تک نکال لیتے ہیں۔ میں نے شب بھر اس کے حسن کا مقابلہ کیا۔ اس نے سرتوڑ کوشش کر کے مجھے رجھایا۔ میں نے مگر حیات کی دیوی سے بےوفائی نہ کی۔ میں صبح صادق تک اس سے جوچتا رہا۔ اس کے حسن سے بھڑتا رہا۔ یہ روح اور قسمت کی جنگ تھی جس کا میدان میرا ہی قلب تھا۔
بالآخر میں نے اسے بھگا دیا۔ ایک بار پھر اس خوبصورت بلا کو پسپا کیا۔ اسے رنجور کیا تو حیات کی دیوی آن پہنچی۔ برابر لیٹی اور کان میں یہ نغمہ گانے لگی۔
ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں برنگِ عمر
جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا
گاتے گاتے چومنے لگی اور جہاں جہاں چومتی وہاں پرسکونی کی ایک لہر دوڑ جاتی۔ کچھ پل میں ہی زندگی مجھے محسوس ہونے لگی۔ خوش شکل موت کو پچھاڑ چکے تھے۔ زندگی سے ہم آغوش تھے۔ وہ کہنے لگی یہ دوبارہ آئے گی مگر تم نے اس کے ساتھ نہیں جانا۔ میں نے شکوہ کیا کہ تم نے اسے مجھ تک آنے ہی کیوں دیا۔ اس کے آنے کے اسباب بھی تمہاری ہی دین ہیں۔۔
موت کی راہ نہ دیکھوں کہ بن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں کہ نہ آؤ تو بلائے نہ بنے
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میری گردن پہ ہونٹ رکھ دئیے۔ اپنا سینہ مجھ پر رکھا اور میں گہری نیند سو گیا۔۔ تب سویرے چھ بج رہے تھے۔