Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Dunya Dard Se Ibarat Hai

Dunya Dard Se Ibarat Hai

دنیا درد سے عبارت ہے

میں نے وہ سب دیکھ لیا جو شاید بدھا نے بھی کبھی دیکھا تھا۔ وہ درد اور سوز بند آنکھوں سے ہی نظر آ سکتا تھا۔ کھلی آنکھوں کو سامنے کے منظر سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے۔ بدھا نے بدھی کے درخت کے سائے تلے آنکھیں بند کی بھوک، پیاس خود پر طاری کی اور نتیجتاً کہا کہ "دنیا درد سے عبارت ہے"۔

رومی نے بھی سنیاس لیا تو انجام کار کہا کہ "زخم وہ جگہ ہے جہاں سے روشنی تم میں داخل ہوتی ہے"۔

بندے نے بھوک، پیاس، تکلیف اور بند آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ مریض کے لواحقین جو گھروں میں موجود ہیں وہ زیادہ اذیت میں ہیں۔ مریض کی بیشتر تکلیف وقتی ہوتی ہے آتی جاتی رہتی ہے، اہل خانہ ہر ہر پل اس کرب سے گزرتے رہتے ہیں۔ دور کہیں کوئی ماں اس وقت بھی تسبیح گھماتے ہوئے اونگھنے لگے تو اپنی نیند کے غلبے پر غصہ کر کے رونے لگتی ہے۔ جوان مریضوں کی ہمسفر رات بھر تکیے کو گلے لگا کر بستر کی چادر کھینچتی رہتی ہیں، آنکھوں ہی آنکھوں میں راتیں بسر ہوتی ہیں اور صبح ادھڑی پوشاکیں ان کے کرب کی داستاں سناتی ہیں۔

بند آنکھوں کے دوران سنا کہ دوسرے مریض کی چار سالہ بیٹی ہے۔ ننھی آواز میں بابا کو ہیلو کہتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آپ نے کھانا کھایا ہے؟ اس بیچاری کا فہم اتنا ہی ہے اور باپ کو کھانا کھلا کر پانی دے کر ہی اس کی اپنی تشفی ہوتی ہے۔ باپ جواب میں پوچھتا ہے کہ سکول پیدل گئی تھی یا کوئی سائیکل پہ لے گیا تھا؟ وہ جب پیدل کا تذکرہ کرتی ہے تو باپ ہسپتال کے بستر سے بتاتا ہے کہ جب میں آؤنگا تو تمہیں اپنی گاڑی میں لیجاؤں گا۔

یہاں بچے بھی ہیں تین، پانچ، بارہ سالہ بچے۔ یہ کسی کے پوتے ہیں اور کسی کے نواسے ہیں کبھی ان کی نواسے گھروں میں چہل ہوتی ہوگی اب وہ جگہیں سنسان رہتی ہونگی، ہو کا عالم یہی تو ہوتا ہے۔ کوئی برتن بجے تو دادی کو لگتا ہے کہ بدمعاش ہی ہوگا پھر اچانک سے خیال آتا ہے کہ بدمعاش تو ہسپتال میں ہے، مائیں ہسپتال میں ہیں باپ گھر جاتے ہوئے فروٹ اور پیسٹری نہیں خرید رہا۔ خیال آتا ہے تو تکلیف سہارتا ہے۔ بند آنکھیں بھی کیسی استاد نکلیں۔

بڑے بوڑھے اِن سیاہ اندھیری آنکھوں سے ہی دیکھے جا سکتے تھے جنہوں نے کئی دہائیاں پال پوس کر بیٹے جوان کئے اور اب سوچتے ہیں کہ زندگی بھر انہیں مزید پال لینگے۔ بہنیں جو بھائیوں کی خوشی میں ہمیشہ خوش ہوتی ہیں وہ مجھے اندھیرے میں نظر آئیں۔ ان کے بھائی ان کا غرور تھے۔ یہ سب درد پہلے کیوں نظر نہیں آتے تھے؟ شاید سامنے کا دریا سامنے ہونے کی وجہ سے اوجھل سمندر کا خیال ہی نہیں آتا۔ ہاں یہ مریض دریا ہوں تو اہلخانہ سمندر ہیں۔

سوچتا رہا کہ مصر کے یوسف کا یہی معاملہ ہے۔ کنویں میں اور قید خانے میں برے برے وقت ہی سہی، مگر زلیخا کے گھر اور چودہ سال کی وزارت و امارت میں پرسکونی بھی رہی۔ جبکہ یعقوب تو اہلخانہ تھے۔ ان تمام برسوں میں ایک پل بھی ان کو سکون نہیں آیا ہوگا۔ بسمل کی طرح تڑپے ہونگے۔ کیا عجب ہے کہ ہماری دعا صرف بیمار کے لئے ہو۔ یہ جو ایک درد کا دریا اہلخانہ پہ گزرتا ہے اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے؟

اہلخانہ میری نظر میں نہیں تھے۔ چڑھتا سورج ہی نظر آتا تھا۔

اب شاید بدھا سمجھ آنے لگے ہیں۔

جہان درد سے عبارت ہے نہ کہ مریض درد سے عبارت ہے۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar