Allama Dameri
علامہ دمیری
امام الدمیری نے "حیات الحیوان" نامی کتاب لکھی۔ اس میں 1069 جانوروں کا اور 69 خلفاء کا تذکرہ ہے۔ انہوں نے حدیث کا علم ابوالفرج بن القاری اور محمد بن علی الحراوی سے حاصل کیا۔ اس کتاب کا ترجمہ دنیا کی بہت ساری زبانوں میں ہوا ہے۔ حیوانات پر یہ کتاب آج بھی اتھارٹی سمجھی جاتی ہے۔
خاص طور پر انہوں نے مچھلی کے بارے میں جو لکھا وہ بہت مشہور ہوا اور آج بھی علمی حلقوں میں یہ بحث چلتی رہتی ہے کہ مچھلی میں خون ہوتا ہے یا نہیں؟ علامہ الدمیری کے diehardفالورز کے سامنے مچھلی کاٹ کر خون دکھا چکا ہوں پھر بھی وہ بضد ہیں کہتے ہیں کہ جب امام صاحب نے کہہ دیا کہ مچھلی میں خون نہیں ہوتا تو مطلب خون نہیں ہوتا۔
مزے کی بات یہ ہےکہ علامہ الدمیری کے متاثرین مچھلی کو ایک کولڈ بلڈڈ ہی تصور کرتے ہیں۔ علامہ صاحب کی کتاب کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے آپ نے سنا ہو گا۔ لکھتے ہیں کہ امام شافعی(رح) جب مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے تو ایک لومڑی ان کے دسترخوان سے ایک مرغی چرا کر لے گئی۔
جب نماز ختم ہوئی تو انہوں نے بڑا افسوس کیا، اسی دوران وہی لومڑی دوبارہ آئی اس کے منہ میں مرغی جیسی کوئی چیز تھی امام صاحب اس کی طرف دوڑے، لومڑی نے مرغی ایک طرف رکھی اور گھوم کر دستر خوان پر آئی اور دوسری مرغی اُٹھا کر لے گئی۔ جب وہ پہلی مرغی کی طرف پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ مرغی نہیں بلکہ کھجورکی چھال ہے۔
اس واقعے سے انہوں نے لومڑی کا چالاک ہونا ظاہر کیا اور تب سے مسلمان سماج کی کہانیوں میں لومڑی کو چالاک لکھا اور سمجھا جاتا رہا ہے۔ بیشک امام صاحب نے موجودہ دنیا پہ اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ عرض مگر یہ ہے کہ علم میں ترقی ہونی چاہئے۔ نصوص نہ سہی مگر علم الحیوانات میں کم از کم جدید ریسرچ کو راہنما ماننا چاہئے۔
یہی ارتقاء ہے کہ آج مچھلی میں تین بلڈ گروپ ہوتے ہیں اور علامہ الدمیری کی مچھلی میں خون ہی نہیں ہوتا تھا۔ اللہ سب کو علم اور سمجھ عطا فرمائے۔