Agar Karobar Karna Hai
اگر کاروبار کرنا ہے
آپ اگر ایماندار ہیں تو پاکستان میں کاروبار نہیں کر سکتے۔ آپ کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جو وزن میں چوری کرتے ہیں، ٹیکس میں چوری کرتے ہیں، مال بیچنے کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ رسوخ رکھتے ہیں۔ میرا اشارا بڑے کاروبار کی طرف ہے۔
ایک عزیز دوست فارما کمپنی کا سٹارٹ اپ کرنا چاہتے تھے۔ معلومات جمع کی تو ادراک ہوا کہ جب تک میڈیکل ریپ (medical representatives) کو تگڑا کمیشن اور ڈاکٹروں کو غیر ملکی ٹرپ نہ دیا جائے تب تک اس میدان میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے فارما کمپنی کا ارادہ ترک کیا کیونکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ چرس بیچ لیں گے لیکن وہ کام نہ کریں گے جس میں انسان سپلائی کرنے پڑ جائیں۔
ایک اور دوست سٹیل بار (سریا) ٹریڈنگ کرنا چاہتے تھے۔ باہر سے پڑھ کر آئے تھے اور ٹیکس چوری کرنا گناہ عظیم سمجھتے تھے۔ اپنے اصولوں کے مطابق کاروبار شروع کیا مگر چار ماہ سے زیادہ نہیں چلا پائے۔ ان کے تقریباََ نناوے فیصد کسٹمر ٹیکس نہیں دیتے تھے اور اپنے آپ کو end user ڈیکلئر کر کے وہ موجودہ ٹیکس سرکل میں سروائیو ہی نہیں کر سکے۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ تھے جو سو ٹن بیچ کر پندرہ ٹن کا ٹیکس دیتے اور کسٹمر کو مال بیچتے وقت کم تولتے چوری کرتے۔
یہاں آپ کو کاروبار کرنے کے لئے فرعون بننا پڑتا ہے۔ رحم کے جذبات رکھنے والے کاروبار نہیں کر سکتے۔ آپ بازار میں کسی پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ اگر کسی نے جھوٹ یا فریب سے آپ کو غلط مال دیا ہے تو آپ اسے کہیں چیلنج نہیں کر سکتے۔ آپ کے دوست بھی آپ سے یہی کہیں گے کہ آپ کی غلطی ہے آپ نے احتیاط نہیں کی۔ اگر آپ کی رقم کوئی لے کر بیٹھ جائے تو آپ فون پر فون کرتے جائیں گے۔
کوئی سرکار، کوئی عدالت، کوئی ادارہ آپ کی مدد نہیں کر سکے گا ایسا کوئی مکینزم ہی موجود نہیں۔ آپ کے پاس کسی کا چیک موجود ہے اور بار بار باؤنس ہو رہا ہے تو بھی قانونی چارہ جوئی اتنی مشکل اور گنجلک ہے کہ آپ اپنے دو چار لاکھ بھولنا ہی مناسب سمجھیں گے۔ آپ ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان کر ہی پریشان ہو جائیں گے کہ باہر دنیا میں پاکستان کے مال کو ایک کی بجائے تین بار چیک کیا جاتا ہے۔
آپ کا کوئی پیٹی بھائی چند لاکھ روپے کی خاطر دو نمبر چیز باہر بھجوا کر پورے ملک کا اعتماد ختم کروا چکا ہے۔ آپ امپورٹر ہیں تو شپنگ کمپنیاں آپ کو پاگل بنا دیتی ہیں، کنٹینر کھرچ جائے تو آپ سے چار چھ لاکھ جرمانہ وصول کرنے کے لئے پورٹ پر مال روک دیتی ہیں، آپ پندرہ دن تک کنٹینر نہ نکالیں تو فی کنٹینر ڈھائی تین ہزار یومیہ کا جرمانہ لگتا ہے جس سے بچنے کے لئے شپنگ کمپنیوں کا تاوان بھرنا پڑتا ہے۔
آپ ایمازون پہ کام کرنا چاہتے ہیں اور سامان بھیج کر امریکی وئیرہاؤس میں رکھنا چاہتے ہیں تو سرکار آپ سے کہتی ہے کہ جو سامان جا رہا ہے اس کی وصولی رقم کہاں ہے؟ آپ سمجھا کر تھک جاتے ہیں کہ ابھی بکا نہیں ہے بلکہ فروخت ہونے کے لئے جا رہا ہے مگر وہ آپ کو ایسا نہیں کرنے دیتے۔ ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا ہوتا کہ کوئی انٹرنیشنل گودام آپ کی امانت کیسے رکھ سکتا ہے؟
دکھ ایک نہیں ہے ہزار ہیں۔ پھر ایسے وقت میں انسان فرعون بننے کو ترجیح دے تو بھی اپنا من کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ ناامیدی اچھی چیز نہیں لیکن سبق یہی ہے کہ کاروبار کرنے کے لئے سیاہ دل ضروری ہے۔