Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Ur Rehman
  4. Aaj Phir Hospital Ke Bistar Per Hoon

Aaj Phir Hospital Ke Bistar Per Hoon

آج پھر ہسپتال کے بستر پر ہوں

آج پھر ہسپتال کے بستر پر ہوں۔ بیچارگی کا احساس ایسا ہے کہ بلاوجہ ہسنی چھوٹ رہی ہے۔ ڈاکٹر کہتے تھے خون میں لالی کم ہے۔ یاروں نے کہا دراصل خون سفید ہوگیا ہے۔ محبوبہ نے کہا کسی دوسری کے لئے جلا لیا ہوگا۔ آغا خان کی رپورٹ کہتی ہے۔ خون میں کچھ بھی درست نہیں یہ خلیے دائرے کی صورت ہوتے ہیں۔ جو اب کبھی مربعے کبھی تکونی ہو رہے ہیں۔

کمینے دوست نے کہا کہ تکونی خون کا مطلب تمہارے اندر دجالی صفات پنپ رہی ہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف ہیماٹالوجی آیا تو ان سے معلوم ہوا ہڈیوں کے گودے کا سیمپل نکلے گا، تب اصل بیماری معلوم ہوگی۔ طب کے شعبے سے متعلقہ دوستوں سے مشورہ لیا انہوں نے کہا کر کر ڈالو کام پینتیس ہو جائے گا۔ یہ راز سمجھ میں آیا کہ جب جان پہ بنی ہو تو الٹا لیٹنے میں قباحت نہیں۔

پہلے ٹیسٹ میں لوکل انستھیزیا کی باریک سرنج کمر میں گھسائی تو ساتھ ہی انکھیں درد سے بند ہونے لگیں۔ آخری سرنج جس میں ہڈی کا سیمپل لیا اس نے حد کر دی۔ گویا ڈرل مشین سے ہڈی میں چھید ڈالا جا ہو۔ اور لگاتار اندر باہر کر رہے ہوں۔ یہ جسمانی درد اپنی جگہ مگر لیڈی ڈاکٹر بہت سمجھدار تھیں۔ بار بار یہی کہہ رہی تھیں، آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔ کراہتے ہوئے، اُن سے کہا کہ جن کا یہ جملہ ہے۔

آپ ہمارے ساتھ سلوک بھی اس جیسا ہی کر رہی ہیں۔ انہوں نے جو چاہا جتنا چاہا نکالا اب ہفتے بھر میں بتائیں گے کہ سمسیا کیا ہے۔ اب خون کی بوتل چڑھ رہی ہے اور دیکھ رہا ہوں کہ اس خون کا کوئی مذہب نہیں، مسلک نہیں، ذات برادری نہیں، ممکن ہے کسی پیٹر ڈیسوزا کا خون ہو، جسے پورک کھانے کی لت ہو یا کسی خواجہ سرا کا ہو، ممکن ہے سید زادہ ہو یا میڈیکل کالج کی کوئی طالبہ۔

جس نے اپنی پم جولیوں کے ہمراہ اک شوق کی تکمیل کرتے ہوئے خون عطیہ کیا ہو۔ جسم ہو نظام ہو یا دنیا کی کوئی بھی چیز ہو، اسے کسی بھی عقیدے رنگ نسل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق تو خیر ہم انسانوں کو بھی نہیں پڑتا دیکھا دیکھی اور فیشن کے طور پر الگ الگ گروپ بنا لیتے ہیں۔ ایک جناب بہت وجیہہ یہاں موجود ہیں۔ ان کی بھتیجی برابر بستر پر ہیں۔ کچھ گفتگو ہوئی تو کہنے لگے یہ بچی تجربے کا شکار ہے۔ مجھے لگا کسی ڈاکٹر کی ناتجربہ کاری کو تجربہ کہہ رہے ہیں۔

کہنے لگے ہمارے خاندان کی ہر وہ شادی جو برادری سے باہر ہو ٹھیک رہتی ہے۔ اور آپس میں جو بھی شادی ہو ان کے بچے تھیلسیما کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنے بھائی کی شادی پر میں نے احتجاج کیا، مگر نہ سنی گئی اور اس بچی کے بھائی سمیت دیگر ایسے بچے تھیلسیما کے مریض ہیں، ہر تین چار ماہ میں خون لیتے ہیں تو زندہ ہیں۔ ان صاحب کو اتنا ہی دلاسہ دے سکا ہوں کہ انکل جی کوئی بات نہیں سب کے خاندان والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔

انکل کا تذکرہ اس لئے کیا کہ آپ مجھے بھول جائیں۔ بھلانا اس لئے ہے کہ گیٹ ویل سون اور کاملہ عاجلہ وغیرہ سن کر بےچارگی کا احساس راسخ ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مجھ سے بڑھ کر میری ول پاور بڑھانے والا بھی کوئی نہیں۔ خون میں لالی اب بڑھ رہی بوتل ختم ہونے والی ہے، باقی کی باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan