Parhta Ja Sharmata Ja
پڑھتا جا شرماتا جا
دنیا ہم سے بہت آگے ہے یا ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں؟
آج جبکہ دنیا چاند پہ قدم رکھ رہی ہے سورج پہ تحقیقات کر رہی ہے۔ مریخ پہ آباد ہونے کے اسباب تلاش کر رہی ہے، اک نئی دنیا دریافت کرنے کے لے نت نئی ایجادات کر رہے ہیں۔ اور ہماری قوم اب تک روٹی، کپڑا، مکان، صحت کی بنیادی سہولیات کے لے ترس رہی ہے۔ ملک خداد پاکستان میں عدل و انصاف نام کی چیز نہیں ہے۔ ابھی دو دن پہلے کی ہی خبر ہے سپریم کورٹ میں اک بوڑھا شخص انتقال کر گیا جسے 18 سال بعد انصاف ملا۔ ہماری عدالتوں میں 25 لاکھ کے قریب مقدمات زیر سماعت ہیں۔ 40 40 سال سے لوگ انصاف کے لے خوار ہو رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم سورۃ النساء میں فرماتا ہے۔
یااَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُوۡنُوۡا قَوَّامِيۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوۡ عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَوِ الۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَؕ اِنۡ يَّكُنۡ غَنِيًّا اَوۡ فَقِيۡرًا فَاللہُ اَوۡلٰى بِهِمَا۔
اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ اللہ کے لئے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو یا ماں باپ کا یا رشتہ داروں کا جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو۔ (ف343)
بہرحال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ لوگ کہتے ہیں، اللہ آسمان سے اتنا پانی کیوں برسا رہا ہے؟ میں کہتا ہوں شکر کرو کہ ابھی اس نے پتھر نہیں برسائے، آگ کی بارش نہیں کی، ابھی پرسوں کی ہی خبر ہے، اک سیلاب متاثرہ لڑکی کو راشن کے بہانے بلا کر نشہ آور ادویات دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، مملکت خداد کا ماحول اس قدر گندہ ہو گیا، کہ ہر چوتھی گلی میں فحاشی کا اڈہ موجود ہے۔
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب سورۃ الاسراء 32 میں واضح فرما دیا۔
وَلَا تَقۡرَبُوۡا الزِّنٰٓى اِنَّه، كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَّسَآءَ سَبِيۡلاً۔
"اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ بےحیائی اور بری راہ ہے۔ "
اللہ نے زنا کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے، علماء نے تو نظر کے زنا سے بھی بچنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔ آپ ہمارے تعلیمی ادارے دیکھ لیں، وہاں کا ماحول دیکھ لیں، کہی سے بھی لگتا ہے ہم اسلامی ریاست ہیں؟
اللہ نے تو فرما دیا۔ تم پلٹ جاؤ گے میں پلٹ جاؤنگا، تم لوٹ آؤ گے میں لوٹ آؤنگا۔
یہاں اک شعر یاد آ گیا۔
واۓ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا۔
کارواں کی نظروں سے احساس جاتا رہا۔
ہمارے لوگوں کو، ہماری قوم کو احساس ہی نہیں ہو رہا کہ ہم ضائع ہو رہے ہیں، ستم ظریفی ہم نہ اپنے دوستوں سے سیکھتے ہیں نہ اپنے دشمنوں سے۔ دشمن انڈیا کو ہی دیکھ لیں۔ اس وقت اقوام عالم کی تمام بڑی کمپنیوں کے سربراہ انڈین ہیں، ایشیاء کی تمام بڑی کمپنیوں کی اسمبلنگ یا مینیوفیکچرنگ انڈیا میں ہو رہی ہے۔ آج انڈیا دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے، مڈل ایسٹ کی کسی اچھی کمپنی کا انٹرویو دیں تو سامنے انڈین ضرور بیٹھا ملتا ہے۔ ہم کرپٹ سیاستدانوں، جاہل ملا اور کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھوں ایسے پھنسے کہ تباہی کے دہانے پہنچ گۓ اور تباہی بھی ایسی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
جیسا غالب نے کہا۔
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے۔
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے۔
اسرائیل کو ہی دیکھ لیں، جو عرب ممالک کل تک اسرائیل کو ختم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، آج وہ اسرائیل سے تجارتی و سفارتی مراسم بڑھا رہے ہیں۔ امریکی صدر کیوں خود چل کر سعودیہ آیا؟ پہلے لوگوں کو سیاسی طور پہ غلام بنایا جاتا تھا آج معاشی و ذہنی طور پہ بنایا جاتا ہے۔ یورپ نے اسلام کو اپنایا نہیں ہے، لیکن اسلام سے سیکھا اور اس پہ عمل ضرور کیا ہے، یورپ کے ادروں میں آپکو دوہرا معیار نہیں ملے گا۔ وہاں فوری انصاف ملے گا۔ لیکن ہم نے اپنا پورا نظام برباد کر لیا، ارکان اسمبلی کو کلمے تک نہیں آتے، ہماری اشرافیہ صرف فوٹو شوٹ پہ لگی ہوئی ہے۔
روس میں ہر چوراہے پہ ایٹمی جنگ سے بچنے کے لے زیر زمین خندقیں کھودیں ہیں، اشیاء ضروریات کی ہر شے موجود ہے ادویات سب کچھ۔ موجودہ سیلاب میں اگر صرف دو بلاول ہاؤس بیچ دیئے جائیں تو بھی سیلاب زدگان کی اچھی مدد ہو جائے گی۔ لیکن کرے کون؟ اچھا غلام بھی غلام ہی ہوتا ہے، مالک نہیں۔