Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Mahmood
  4. Ghairat Hai Bari Cheez

Ghairat Hai Bari Cheez

غیرت ہے بڑی چیز

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و در میں

پہناتی ہے درویش کو تاج سرداراں

یہ دنیا ممکنات کا سر‍ چشمہ ہے ہر روز ایسے ایسے شاہکار ہو رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ انٹرنیٹ کی اس حد تک رسائی اور تعلیمی اداروں میں اس قدر کھلا ماحول ملنے کے باوجود ہم ریسرچ، ایجادات، اخلاقیات، معاملات میں اس قدر پیچھے کیوں ہیں؟ کیوں ہم لوگ غلامی، بے روزگاری، غربت، افلاس، بے حسی کے دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں؟ حالانکہ قدرت نے ہمیں اپنی تمام نعمتوں اور برکتوں سے مالامال کیا ہے۔ ہمیں لازوال زرخیز زمین، مسلسل موتی برساتے بادل، مون سون کے سلسلے، آسمان کے قدموں کو چومتے ہوۓ پہاڑ، زمینوں کو سیراب کرتے دریا، کبھی نہ جمنے والے سمندر، اور سب سے بڑھ کر اپنا کلمہ عطا کیا۔ یہاں اقبال مرحوم کا شعر یاد آ گیا۔

یورپ کی غلامی پہ ہوا رضامند تو

مجھے تو تم سے گلہ ہے یورپ سے تو نہیں

آج ہمارے تمام اعلیٰ افسران کی تربیت و تعلیم مغرب سے ہوتی ہے، انکے بچے یورپی سکولوں میں پڑھنے اور فر فر انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں، یورپ اپنے نظریات، افکار، تہذیب، ماحول، انکے ڈی این اے میں بھر دیتا ہے، مغرب انہیں بے تحاشہ دولت جمع کرنے کی ہوس، لوگوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا، سٹریس دور کرنے کے لے شراب پینا جیسی لاتعداد بیماریوں کو راحت کا سامان سمجھنا سیکھا دیتا ہے۔ قوم بنانے کے لے خون پسینہ بہانہ پڑتا ہے۔ قوم ایک ہجوم نہیں ہوتا، بلکہ اتحاد، نظم و ضبط، حسن اخلاق، رواداری کا شاہکار ہوتا ہے۔ جناب اقبال فرماتے ہیں۔

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے تیری ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اگر ہم اپنی تاریخ کو بھول جائیں، اپنی روایات سے منہ موڑ لیں، اپنی تہذیب و تمدن کو چھوڑ دیں۔ تو بقول شاعر۔

ہماری داستاں تک نہ ہو گئی داستانوں میں۔

یہاں اقبال کا ایک اور شعر یاد آ گیا۔

یوں سید بھی ہو، مرزا بھی، افغاں بھی

بتاؤ ہو کیا مسلمان بھی؟

یہاں اقبال نے ہمارے لیے نقطہ سوال چھوڑا ہے کہ ذات پات، رنگ و نسل، گھرانہ و خاندان، حسب و نسب سے نکل کر یہ بتاؤ، مسلمان بھی ہو کہ نہیں؟ محمد عربی ﷺ کے غلام بھی ہو کہ نہیں؟ یہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بالکل اپنے پڑوس میں دیکھا کہ کس طرح بے سر و سامان مجاہدین نے اللہ پہ توکل کر کے اللہ کے محبوب ﷺ کا علم اٹھایا، پھر اللہ نے بھی اپنا وعدہ سچا کر دیکھایا، اور انکی مدد کی، اور ان کو فتح دے دی، اور یوں انہوں نے افغانستان کو وقت کی تین سپر پاورں کا قبرستان بنا دیا۔

جیسا کہ اللہ نے سورۃ محمد رکوع 4 آیت 38 میں فرمایا۔

وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْۙ-ثُمَّ لَا یَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ۠۔

"اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔ "

ہمیں اللہ تعالیٰ کے مشن کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا، اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ اور یہ کامیابی دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔

جیسے ربّ العزت نے اپنے ذکر قرآن پاک آل عمران آية 139 میں فرمایا۔

وَلَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۔

"دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ "

وہ مملکت خداداد جو کبھی جرمنی کو قرضے دیتا تو کبھی عرب ممالک کی ائر لائن بنانے میں مدد کرتا تھا، تو کبھی چائنہ کو راہداری فراہم کرتا، آج خود پوری دنیا میں کشکول لے کر گھوم رہا ہے۔ آخر آج سوال پوچھا جاتا ہے، 90ء کی دہائی میں برق رفتاری سے ابھرتے ہوئے پاکستان کو آخر کس نے زنجیروں میں جکڑا؟

غلامی میں کام آتی ہے تکبیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

امداد و خیرات سے قومیں عروج نہیں پاتی، بھکاری کی کوئی عزت نہیں کرتا، شہباز شریف نے بالکل درست فرمایا۔

"beggars cant chooser"

ستم ظریفی دیکھیں، ہم پاکستانیوں کو پوری دنیا میں سب سے مختلف پروٹوکول ملتا ہے، جونہی ہوائی اڈے پر ہمارے پاسپورٹ سے ہمارا تعارف ہوا کہ ہم پاکستانی ہیں، ہمیں علحدہ کمرے میں لے جا کر ننگا کر دیا جاتا ہے، ہمارے وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی نہیں بخشا، عجیب پالیسی ہے۔ ہم سات سمندر پار امریکہ کو ناراض نہیں کر سکتے، مگر یہ پڑوس میں موجود چائنہ، افغانستان اور ایران کی کوئی پرواہ نہیں۔

ہماری پوری کی پوری معیشت امداد پہ کھڑی ہے۔ خوداری، احساس ذمہ داری نام کی چیز نہیں، ہمارا ہر ادارہ ریونیو کھا رہا ہے، کوئی بھی ریونیو بنا نہیں رہا، اور عجیب ملک ہے جہاں غریبوں سے پیسہ لے کر امیروں کو دیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ یونہی چلتا رہے گا؟ یا یہ کبھی بدلے گا؟ اگر بدلے گا، تو کون اسے بدلے گا؟ کیسے بدلے گا؟ یہ کام ہمیں ہی کرنا ہو گا، مل کر کرنا ہو گا۔

Check Also

Shaitan Ke Agent

By Javed Chaudhry