Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saqib Luqman Qureshi
  4. Guru Ke Roop Mein Chupe Mard

Guru Ke Roop Mein Chupe Mard

گُرو کے روپ میں چُھپے مرد

2019ء میں، میں نے پہلے خواجہ سراء کا انٹرویو لیا۔ صاحبہ جہاں کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ گھر چھوڑتے وقت اس کے پاس دو آپشن میں سے ایک خودکشی تھا۔ صاحبہ نے خودکشی کے بجائے گھر سے بھاگنا مناسب سمجھا۔ انٹرویو کے بعد صاحبہ سے دوستی ہوگئی۔ میں نے تصاویر میں صاحبہ اور اسکے چیلوں کو دیکھا تو احساس ہوا کہ یہ لوگ دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔

اسلام آباد کی مشہور خواجہ سراء رانی خان جنھیں دنیا میں پہلا خواجہ سراؤں کا مدرسہ کھولنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انکی بھی تصاویر دیکھتا ہوں۔ یہ بھی چیلوں کے ساتھ دوستوں کی طرح رہتی ہیں۔

میں نے راولپنڈی سے میڈم صباء گل کا بھی انٹرویو کیا۔ انکے چیلے انھیں ماں کہتے ہیں اور بچوں کی طرح رہتے ہیں۔ صباء گل کی خواجہ سراء کمیونٹی میں بہت عزت ہے۔ کمیونٹی میں بھی انھیں ماں کہ کر پکارا جاتا ہے۔

مرحوم نادرہ خان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ میں نے خواجہ سراؤں کے حقوق پر جتنا بھی لکھا اس میں شائد آدھے سے بھی زیادہ نادرہ خان کے تعاون سے لکھا۔ نادرہ کی زندگی مانسہرہ کی پولیس نے اجیرن کر رکھی تھی۔ اسکے ہر ایونٹ پر پولیس دھاوا بول دیتی۔ اسے اتنا تنگ کیا گیا کہ ذہنی مریضہ بن گئی اور اللہ کو پیاری ہوگئی۔ غربت کے باوجود نادرہ کے چیلے بھی اس سے محبت کرتے تھے اور دوستوں کی طرح رہتے تھے۔

ملک کے بہت سے نامور خواجہ سراء کراچی کی بندیا رانا کے چیلے ہیں۔ سب دوستوں کی طرح رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے انھیں بہت عزت دیتے ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی شادی کے موقع پر ان سے دعائیں لیں۔ اسکے علاوہ انکی ٹیم سندھ کے وزیروں کے ساتھ اکثر تقاریب میں نظر آتی رہتی ہے۔

بلوچستان کو چھوڑ کر ملک کے کچھ شہروں کے مشہور گرو حضرات سے میرا رابطہ ہے۔ ہماری کالونی میں بھی ایک چھوٹے سے مکان میں خواجہ سراء عرصہ دراز سے رہ رہے ہیں۔

میڈم صباء گل گزشتہ چند ماہ سے گروؤں کے چیلوں پر تشدد کی ویڈیوز مجھے بھیج رہی ہیں۔ کسی ویڈیو میں چیلے کو رسی سے باندھ کر مار لگائی جا رہی ہے۔ کسی میں مرغا بنا کر مارا جا رہا ہے۔ کسی میں چیلے کا سر منڈوایا جا رہا ہے تو کسی میں چیلا خود اپنا جلا ہوا جسم دکھا کر مدد کی اپیل کر رہا ہے۔

تشدد کی یہ ویڈیوز خواجہ سراؤں کے گروپس میں آتی رہتی ہیں۔ ایسی ویڈیوز میں گرو فخر سے چیلے کا جرم بتاتے ہوئے یا تو خود سزا دے رہا ہوتا ہے یا پھر دوسرے چیلوں سے یہ کام کروا رہا ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ بہیمانہ تشدد کرنے والے یہ گرو کون لوگ ہیں؟

خواجہ سراؤں کے روپ میں یہ لوگ اس کمیونٹی کا حصہ کیسے بن جاتے ہیں؟

اس سارے معاملے کو سمجھنے کیلئے ہمیں معاملے کی باریکیوں پر نظر ڈالنی ہوگی۔ خواجہ سراء بائیلوجیکلی طور پر نہ تو مکمل مرد ہے نہ عورت۔ انکے استحصال کا سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جوانی تک پہنچنے پہنچتے بیشتر کا ایک یا متعدد بار ریپ ہوچکا ہوتا ہے۔ ہزاروں بار ہراسانی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں۔

گھر چھوڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن جب کوئی دوسرا آپشن نہیں بچتا تو گھر بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ بھیک، فنکشنز اور سیکس ورک انکے کرنے کے کام رہ جاتے ہیں۔

زیادہ تر خواجہ سراؤں کے گھر ویرانوں میں یا آبادی سے دور ہوتے ہیں اسلیئے یہاں پولیس اور جرائم پیشہ افراد کا آنا جانا رہتا ہے۔ گلیوں اور بازاروں کے اوباش نوجوانوں سے انکی دوستی ہو جاتی ہے۔ یہ اوباش جب انکے گھروں میں جاتے ہیں پیسے اور سونے کی ریل پیل دیکھتے ہیں تو یہ خواجہ سراء کاروپ دھار کے انکے گروپس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھر گرو بن کر خواجہ سراؤں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔

ایڈوکیٹ نشاء راؤ نے ہمیں بتایا کہ خواجہ سراء کمیونٹی میں ساٹھ سے ستر فیصد گرو مرد حضرات ہیں۔ جو گاؤں یا دوسرے شہروں میں بچے پال رہے ہوتے ہیں۔ ہماری بہت اچھی دوست میڈم صباء گل نے گرو چیلا سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی تو انھیں قتل کی دھمکیاں ملیں۔ متعدد بار حملے ہوچکے ہیں۔

خواجہ سراؤں سے تین چار سالوں سے بنے تعلق کے ضمن میں، میں یہ کہ سکتا ہونکہ خواجہ سراء کی محبت بے لوس ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بہترین انسان ہیں ان سے بنے رشتے کو میں قدرت کا بہترین تحفہ قرار دیتا ہوں۔

گروؤں کے بھیس میں چھپے یہ مرد حضرات خواجہ سراؤں سے بڑے بڑے جرائم کرواتے ہیں۔ نشے کا نیٹ ورک یہ لوگ چلاتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ میں یہ ملوث ہیں۔ انہی کے چیلے سیکس ورک کے ذریعے فحاشی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔

میڈم صباء پولیس کے اعلیٰ افسران سے یہ درخواست کرچکی ہیں۔ کہ گروؤں کا میڈیکل کیا جائے اور انکے شناختی کارڈ کی مکمل چھان بین کی جائے تو معاشرے سے بہت بڑی برائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح روڈ پر بھیک مانگنے والے ذیادہ تر بھیکاری معذور یا بیمار نہیں ہوتے۔ اسی طرح خواجہ سراؤں کے روپ میں چھپے جرائم پیشہ افراد کھسرے نہیں ہوتے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں کمیونٹیز انہی لوگوں کی وجہ سے بدنام ہیں۔ ایک عام مجرم چھوٹے موٹے جرائم ہی کرسکتا ہے۔ جبکہ بڑے کرائم پولیس یا کسی بڑے نیٹ ورک کے بغیر نہیں چل سکتے۔

Check Also

Ye Breed Aur Hai

By Mubashir Ali Zaidi