Tala Bandi Aur Niswani Khatna, Teen Sawalat
تالہ بندی اور نسوانی ختنہ: تین سوالات
کون انکاری ہے کہ ہمارے سماج میں اکثریت عورتوں کی زندگی ایک جانور سے بھی بدتر ہے؟ کس نے کہا کہ عورت کے ساتھ بدترین، گھناؤنے جرائم نہیں ہوتے؟ اس ملک میں انہونی ہونا بعد ازقیاس ہرگز نہیں۔ جہاں ایک محبوبہ کا سر تن سے جدا کرکے اسے فٹبال بنا کر کھیلنا ہو یا ایک دس ماہ کے بچے کی ماں کو ریپ کرکے روتے بچے کو قتل کر دینا ہو۔ یا بیوی کو مار مار کے بھرکس نکال کر یخ بستہ کمرے میں مرتے دم تک ٹھٹھرنے کے لئے چھوڑ دینا ہو۔ یہاں سب ممکن ہے۔ اس کے باوجود سوال پھر بھی اٹھائے جائیں گے۔
لیکن سوال اٹھانے یا اختلاف رائے رکھنے سے لوگوں کو مختلف دھڑوں میں رکھنا اور کٹہرے میں کھڑا کرنا کہاں کا شیوہ ہے؟
محسوس ایسا کروایا جا رہا ہے جیسے، کہ جو اس آرٹیکل کے حوالے سے اگر کوئی بھی سوال ذہن میں ابھرے یا کوئی تنقیدی مکالمہ کرے تو وہ واجب المغلظات ٹھہرے؟ جناب کیا یہ بھی کوئی کلٹ بن گیا ہے کیا؟
یعنی جو من و عن سر تسلیم خم کرے وہ خواتین کے حقوق کا علمبردار اور جو ذرا بھی اس پر سائنٹیفک سوال اٹھائے وہ حقوق نسواں کا قاتل۔
میں یہاں بات ان واہیات اور بے غیرتی پر مبنی کمنٹس اور گالم گلوچ پر نہیں کر رہی جو کچھ لوگوں نے دوسروں کی وال پر کیے ہیں۔ میرے سوشل میڈیا پر کوئی ایسا جاہل اور کم ظرف کم از کم نہیں اور جو تھے یا تھیں انھیں نکال باہر کیا۔
چھوڑیں قبائل کی بحث کو جو بالکل لا حاصل ہیں۔ کیونکہ پورا ملک اور سماج ہی پسماندہ ہے۔
مان لیجیے یہ تالہ بندی کے کیس میرے آبائی شہر کراچی میں رونما ہوئے ہیں۔ ہزاروں نہیں صرف چند عورتیں ہی اس کا شکار ہوئی ہوں۔
میرے نزدیک یہ ظلم کا سب سے ظالمانہ طریقہ کار ہے۔ تالہ کا اس نازک عضو پر لگانے کا تصور ہی مجھے دہلا رہا ہے۔ المیہ دیکھئے کہ مجھے اس کے مقابلے میں جان سے مارے جانا بہت آسان دکھائی دے رہا ہے کہ آنر کلنک (غیرت کے نام پر قتل) جو ہمارے ہاں عام ہے لیکن بس ایک گولی، یا چند چاقو کے وار، یا گلا گھونٹ کر مار دینا بہتر ہے کہ فقط چند سیکنڈ، منٹ کا ہی درد سہنا ہے نا۔
لیکن لیبیا پر تالہ؟ چاہے وہ دنیا کا سب سے چھوٹا تالہ ہی کیوں نا ہو وزن تو رکھتا ہوگا نا؟ اس کے لیے سوراخ بھی کان کی بالی کی طرح سوئی جتنے باریک نہیں باقاعدہ ہول کیے گئے ہوں گے کہ مرد کی ضرورت کے مطابق انھیں چابی سے باآسانی کھولا اور پھر فراغت کے بعد دوبارہ بند کیا جا سکے۔
مجھے آج بھی اپنے کان سوئی سے چھدوانے کا دن یاد آ جاتا ہے کہ کتنا درد ہوا تھا اور عرصہ لگا تھا اس سوئی جیسے باریک سوراخ کو ٹھیک ہونے میں، کہ میں باآسانی اس میں اپنے من پسند بندے پہن اور اتار سکوں۔
کان کی لوئیں اور لیبیا میجورہ کی ساخت ایک جیسی ہی تو ہے۔ آپ نے اکثر عمر رسیدہ یا وہ خواتین جو بھاری جھمکے پہنتی ہیں ان کی کانوں کے سوراخ لمبے اور لوئیں لٹکی دیکھی ہوں گی۔ جبکہ جھمکوں کو کان کے سوراخوں سے منسلک کرنے والا حصہ صرف ایک باریک تار جیسا ہوتا ہے
اندازہ لگائیں کہ ایک دس یا پانچ گرام کا تالہ، دن ہو یا رات، گرمی ہو یا سردی، ماہواری ہو یا عورت حاملہ ہر وقت اس کے اُس کان کی لوئیں جیسے نازک عضو پر لٹکا ہوا ہے اور اسی حالت میں اسے گھر داری، بچوں، شوہر اور سسرال کی ذمہ داریاں بھی تندہی سے نبھانی ہیں تو کیا اس روز روز کے مرنے سے بہتر نہیں کہ ایک ہی جھٹکے میں عورت کی جان لے لی جائے۔
پدر شاہی سماج میں عورت کو قابو میں رکھنے کے لئے کئی طریقہ کار رائج ہیں۔ یورپ میں چیسٹیٹی بیلٹ کا استعمال پندرہویں صدی تک رائج رہا۔ آپ اسے ایک دھات یا لیدر کا بنا ہوا زیر جامہ سمجھ سکتے ہیں جس کے بیلٹ کے ساتھ ایک باقاعدہ تالہ لگایا جاتا تھا۔ رینے سانس (نشاۃ ثانیہ) کی تحریک نے اس گھناؤنی رِیت کا قلع قمع کیا۔
کراچی میں بوہری بہت بڑی تعداد میں مقیم ہیں۔ میری اسکول کی ایک دوست بوہری تھی۔ میری تو شادی ہوگئی لیکن اس نے اعلی تعلیم کے لئے لڑ جھگڑ کر بیرون ملک جانے کا قصد کیا۔
انگلینڈ میں رہائش کے دوران ایک دن اس کی میرے پاس ای میل آئی اور ہم وہاں کوئی بارہ سال بعد ملے۔ نسوانی ختنہ کا ادراک میری اس بوہری دوست کی کہانی سن کر ہوا جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔ چھ سال کی عمر میں اس کے ساتھ اس کے گھر والوں نے یہ بہیمانہ ظلم کیا تھا اور جب اس کی شادی کرنے کھڑے ہوئے تو اس نے صاف الفاظ میں شادی سے انکار کر دیا کیونکہ وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی اور جانتی تھی کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی کا سکھ کبھی بھی نہیں پا سکتی۔
اس نے ہی مجھے بتایا تھا کہ نسوانی ختنہ چار قسم کی ہوتی ہیں۔
اس کے بعد عادتاً اس موضوع پر طرح طرح کی تحاریر، ریسرچ پیپر پڑھے۔
تینوں نسوانی ختنہ میں اعضاء کو بالترتیب کاٹ دیا جاتا ہے جبکہ چوتھی قسم میں لیبیا کو ٹانکے لگا کر سی دیا جاتا ہے یا تار سے دونوں حصوں کو جوڑ دیا جاتا ہے۔ اور وقت ضرورت کھولا جاتا ہے۔ piercing کی ایک قسم۔ آج بھی دنیا کے مختلف خطوں خاص طور سے افریقہ، مڈل ایسٹ اور ایشیا (انڈیا، پاکستان بھی شامل ہیں ) میں آج بھی یہ رسم موجود ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق بیس کروڑ بچیاں نسوانی ختنہ کا شکار ہو چکیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کون ذی شعور ہمارے سماج کی اس تلخ اور اندوہناک حقیقت کو جھٹلانے کی جسارت کر سکتا ہے؟
لیکن آرٹیکل میں تالہ چابی واضح طور پر لکھے ہیں تو میرے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا تھا اور اسی وجہ سے آن لائن سیشن بھی بغور دیکھا اور توجہ سے سنا۔
تالے کے وزن سے متعلق سوال پر بھی جواب نہ ملا۔ دوسرا سوال یہ کہ لیبیا پر سوراخ پیئرسنگ والے ہیں یا تالے کے ہک کی موٹائی کے حساب سے؟ تو اگر صرف ایک تار گزارا جائے تب تو شاید کوئی دائی بھی یہ کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے لیکن اگر موٹے سوراخ کرنے ہیں تو یہ ایک طرح کی سرجری کہلائے گی۔
یہ بھی تمام خواتین جانتی ہیں کہ نائلون کے انڈرویئر تک پہننے پر انفیکشن ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں، تو پھر لیبیا پر ایسے سوراخوں کو بھرنے کے لئے کتنی مدت لگے گی؟ اور انفیکشن سے بچنے کے لئے کوئی اینٹی بائیوٹکس درکار ہوگی یا نہیں؟
ایک تالے کا وزن لیبیا کتنے عرصے تک سہار سکتا ہے؟
یہ سوالات پوچھنا میری سماجی ذمہ داری ہے کہ میں ایک عورت ہوں اور تین جوان بچیوں کی ماں ہوں اور سب سے اہم ایسے گھناؤنے عمل پر آواز اٹھانا میری ذمہ داری ہے۔
لیکن بات سائنٹیفک بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ جیسا کہ عورتوں پر ہر طرح کے ظلم مثلاً قتل، آنر کلنگ، ریپ، انسیسٹ، ابیوز، ڈومیسٹک وائلنس، چائلڈ میرج، فورسڈ میرج، ہراسمنٹ اور نسوانی ختنہ جیسے قبیح جرائم پر میرا اور میرے جیسے تمام دوستوں کا موقف ایک ہے اور سب کسی نا کسی طرح اس کو ختم کرنے کے لئے آواز بھی اٹھا رہے ہیں۔
لیکن کیا ایسے کیس ڈومیسٹک وائلنس میں نہیں آتے؟
انگلینڈ لیڈز سٹی کونسل میں فوسٹر کیئرر کے طور پر کام کرنے کے دوران ایسے ڈومیسٹک وائلنس کے جو بھی کیسز میرے سامنے آتے تھے تو ڈاکٹر سب سے پہلے پولیس کو مطلع کرتے تھے۔ تو کیا ہم جیسے روشن خیال افراد ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے اس کے سدباب کے کے لئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے جس سے ایسے جرائم کی روک تھام ہو سکے؟
بے شک اس نوعیت کا صرف ایک ہی کیس ہوا ہو بے شک وہ کسی قبیلے یا کراچی میں رونما ہوا ہو اس کا سدباب ضروری ہے نا کہ ایک دوسرے کو فیس بک پر ان فرینڈ کرنا، طنز کرنا اور یہ باور کرانے کی کوشش کرنا کہ اگر آپ نے کوئی سوال اٹھایا تو آپ اس مذموم حرکت کے حامی ہیں۔
افسوس صرف اس بات کا ہے کہ بد لحاظ مردوں نے عورت کے ایک تکلیف دہ کیس کو تالہ چابی، تالہ چابی کرکے ایک مذاق بنا دیا۔
جس کسی کے ساتھ بھی خدا نا خواستہ یہ واقعہ ہوا ہے شاید اس تک تو یہ تضحیک نہ پہنچے پر ایک عورت ہونے کے ناتے مجھے ہر ہر میم اور تضحیک اپنے اوپر کہی گئی محسوس ہوئی۔
سوچنا، سوال اٹھانا، تنقید یا تائید کرنا سب کا انفرادی حق ہے۔ کوئی کسی کا خدا نہیں۔ افسوس کہ سو کالڈ روشن خیال افراد بھی مولویوں کی طرح ردعمل دے رہے ہیں۔
یہ سوالات ان تین دن کئی سینئر ڈاکٹرز اور ہیلتھ ورکرز سے جو اندرون سندھ، بلوچستان، کی پی کے اور پنجاب میں کام کر رہے ہیں ان سے تفصیلی بات چیت کے بعد اٹھائیں ہیں اور اس کا مقصد کسی کی بھی تضحیک کرنا نہیں۔
کیا سوال اٹھانا میرا بنیادی حق نہیں؟
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر