Tak Taka Tak
ٹک ٹکا ٹک
خاموش خبیث عورتوں، تم سب غیر ملکی تنخواہوں پر پلنے والی دو ٹکے کی عورتیں ہو۔ میں تھوکتا ہوں تم سب پر۔ "نعرہ لگاتی خواتین پر حسب معمول اس نے اول فول بکنا شروع کردیا۔
"میرا جسم میری مرضی" تمام عورتوں نے بیک وقت دوبارہ نعرہ بلند کیا۔
آڈر آڈر آڈر۔۔ کمرہِ عدالت میں شور برپا ہوا تو جج نے قانون کے ہتھوڑے کو میز پر دو تین بار مارتے ہوئے کہا۔
یہ عدالت ہے کوئی ٹی وی شو یا عورت مارچ نہیں اور آپ زبان سنبھال کر گفتگو کیجیے۔۔
کمرہ عدالت میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے۔ ہر طبقہ فکرکے لوگ موجود ہیں۔ حقوق نسواں کی علمبردار خواتین ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے ہوئے نمایاں نظر آرہی ہیں۔ تمام پلے کارڈز پر ایک ہی نعرہ لکھا ہوا ہے "ہُن سمجھ وی آئی انپڑے جسم نوں مرضی کی ہوندا اے"۔
کمرہ عدالت کے بائیں جانب بنے کٹہرے میں ایک خوب رو جوان لڑکی کھڑی ہے۔ لڑکی کا نام "ع" فرض کرلیتے ہیں۔ جبکہ دائیں طرف والے کٹہرے میں خضاب زدہ بکھرے بالوں اور حواس باختہ چہرے پر کالا چشمہ لگائے ایک ادھیڑ عمر مرد کھڑا ہے جس کے منہ سے ابھی بھی جھاگ نکل رہی ہے۔۔ آپ اس کا نام "خ "سمجھ لیں۔
جج نے "خ" کو بات جاری رکھنے کا حکم دیا۔
خ: جناب والا جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ الحمداللہ میں اسلامی جموریہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈرامہ نویس ہوں۔ کسی مائی کے لال کی ہمت نہیں کہ میرے لکھے ڈرامے کی ایک سطر بھی تبدیل کرے۔ مکالمے اترتے ہیں مجھ پر۔
ع کا وکیل: محترم خ آپ ایسے الفاظ استعمال کرکے عدالت کی بار بار توہین کر رہے ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ پانچ روز قبل صبح چار بجے رونما ہونے والے واقعے کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کریں اور برائے مہربانی یہ کالا چشمہ اتار دیجیے۔
خ کا وکیل: جناب والا۔ میرے موکل ایک فلم پر کام کر رہے ہیں جس کی کہانی ایک ایسے مرد کے گرد گھومتی ہے جو رات کے اندھیرے میں ہی لڑکیاں پٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سورج کی پہلی کرن زمین پر پڑتے ہی وہ ہیرو سے زیرو بن جاتا ہے۔
جج: اس کہانی کا کالا چشمہ لگانے سے کیا تعلق؟
خ کا وکیل: جناب والا اس فلم کے ہیرو میرے موکل ہی ہیں۔ اس لیے میری فاضل جج سے استدعا ہے کہ میرے موکل کو کالا چشمہ پہننے کی اجازت دی جائے تاکہ دن میں بھی انھیں تارے نظر آتے رہیں۔
اجازت ہے۔ جج نے کہا
"خ" نے دوسری جانب کٹہرے میں کھڑی لڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ "جناب والا یہ دو ٹکے کی عورت پندرہ دن سے مجھے جال میں پھنسانے اور جذبات بھڑکانے والے پیغامات بھیج رہی تھی۔ آپ خود بتلائیے کہ قدرت نے مرد کو اس معاملے میں کتنا کمزور اور بے بس بنایا ہے۔ پندرہ دن تک میں دل پر پتھر رکھ کر اس بے غیرت خبیث عورت کو ٹالتا رہا لیکن اس رات میری بس ہوگئی۔
ع کا وکیل: اوبجیکشن مائی لارڈ! میری موکلہ نے انھیں نہیں بلایا تھا بلکہ یہ خود ملنے کے لیے بے تاب تھے۔
جج: اوبجیکشن سسٹین!
ع کا وکیل: آپ صبح چار بجے تنہا ایک انجان لڑکی سے ملنے اس کے گھر کیسے گئے؟ آپ کی بیگم کہاں تھیں؟ انھوں نے اعتراض نہیں کیا؟
خ: تم کس قسم کے وکیل ہو۔ اب اگلا ڈرامہ مجھے وکیلوں کی تربیت کے لیے لکھنا پڑے گا۔
ظاہر ہے اپنی گاڑی میں گیا اور کیسے جاؤں گا۔ ملنے کا ارادہ دراصل رات دو بجے کا تھا لیکن بیگم نے سیریز "ہیرا منڈی" رات میں ہی مُکانے کا عہد کیا ہوا تھا۔ کوئی ساڑھے تین بجے محترمہ سونے کے لیے لیٹی تو آدھا گھنٹہ مجھے بھی سونے کی اداکاری تو کرنی ہی تھی۔ اس لیے نکلتے نکلتے سوا چار بج گئے۔ ویسے آپس کی بات ہے ہماری انڈسٹری میں رات ہی ملاقاتیں کی جاتی ہیں جہاں مرد عورت کی تفریق نہیں ہوتی۔
ع کا وکیل: واہ رائٹر صاحب! مذہب، اخلاقیات اور شرافت کا چورن عوام کے لیے؟
خ: بکتا یہی ہے پیارے۔
جج: الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے عدالت کا احترام ملحوظ خاطر رکھیے۔
ع کا وکیل: پھر کیا ہوا؟
خ: ساڑھے چار بجے وہاں پہنچا تو فجر کا وقت ہونے آیا تھا اپنے حبیب کے صدقے میں نے سوچا کہ نماز یہیں ادا کروں گا۔ لیکن عورت جو ہمیشہ سے فتنے کی جڑ رہی ہے سو مجھ جیسے جہاندیدہ، عالم اور ہمہ جہت شخصیت کو بھی گھاس پر بیٹھا ہوا سانپ بنا ڈالا۔
میں فل موڈ میں تھا کہ یکدم بیل بجی اور چھ سات لڑکے کمرے میں داخل ہوئے۔ تین گھنٹے ان سب نے میرے ساتھ اجتماعی ذہنی اور جسمانی تشدد کیا "خ" روہانسا ہوگیا۔
خ کا وکیل: جناب والا ہمارے ملک کے مایہ ناز لکھاری کی مرمت کرنے پر مذمت ضروری ہے اور میرے موکل کو جلد انصاف مہیا کیا جائے۔
ع کا وکیل: آپ گھر کب اور کیسے پہنچے؟
خ: اس ٹولے نے مجھے کئی گھنٹے گاڑی میں گھمایا میرا موبائیل اور اے ٹی ایم کارڈ اور تمام پیسے بھی ہتھیا لیے اور پھر سانوں نہر والے پل تے چھوڑ کر چلتے بنے۔
جناب والا میری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ ایک دو ٹکے کا گدھا گاڑی والا میرے سامنے سے گزرا تو میں نے پوچھا "اوئے میری بات سنو، تم ملک کے سب سے بڑے ڈرامہ نویس کو نہیں جانتے۔
جناب والا اس دو ٹکے کے گدھا گاڑی والے نے ایک نظر میرے لال پیلے نقش ونگار والے چہرے پر ڈالی اور بولا "او دور فٹے منہ"۔
پھر ایک گاڑی والے نے مجھے پہچان لیا اور گھر ڈراپ کیا۔
ع کا وکیل: غالباً ایک ماہ قبل ایک ٹی وی شو میں آپ اور آپ کے ہی قبیل کے ایک طاغوت نے ایک سوال پوچھنے پر ایک لڑکی کی بری طرح بے عزتی کی تھی۔۔
خ: خدا کی قسم وہ سب اسکرپٹڈ تھا بلکہ اسکرپٹ بھی میرا ہی لکھا ہوا تھا۔ یو نو، اٹ از دا میٹر آف ریٹنگ۔
ع کا وکیل: تین سال قبل مریم کے معاملہ پر بھی آپ نے کہا تھا "اسے شرم آنی چاہیے تھی وہ اس جگہ کس سے پوچھ کر اور کیا کرنے گئی تھی۔ وہاں جانے کی سزا ملی ہے اسے۔
خ: میں آج بھی قائم ہوں اپنی بات پر۔ عورت مارچ ملک کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ یہ دو ٹکے کی عورتیں کس بات کی آزادی مانگ رہی ہیں اور کس سے آزاد ہونا چاہتی ہیں یہ؟ ہم مملکت خداداد پاکستان میں رہتے ہیں کانگو میں نہیں۔
ع کا وکیل: یعنی کل رات آپ کانگو میں تھے؟
خ: واٹ نان سینس!
ع کا وکیل: اس طرح تو آپ کے بارے میں بھی یہی عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ آپ کی دھلائی اور دھنائی بھی ایک اجنبی لڑکی سے ملنے کی سزا ہی ہے۔
خ: میں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ مرد شیطانی کر سکتا ہے اسے قدرت نے یہ کمینگی عطا کی ہے۔ یہ مرد کی ڈومین ہے۔ عورت سڑک پر دامڑ بجھا سکتی ہے؟ جواب دیجیے۔ کیا عورت سڑک پر دامڑ بجھا سکتی ہے؟ صنف نازک ہے عورت! آپ سب جانتے ہیں کہ میں حقوق نسواں کا سب سے بڑا حامی ہوں۔
ع کا وکیل: آپ نے ایک ویڈیو میں خواتین کو ایسا ہی چیلنج دیا تھا کہ مرد اغوا کر سکتا ہے ریپ کر سکتا ہے اگر عورت برابری کی بات کرتی ہے تو کرے نا مجھے اغوا، اور ریپ۔ اب آپ کیا کہتے ہیں؟
خ: ان دو ٹکے کی عورتوں کی یہ مجال کہ مجھے اغوا کریں؟ میرے جسم پر لاتیں مکے برسائیں؟ میری دھلائی کریں؟ یہ خ کا جسم ہے کسی دوٹکے کی عورت کا نہیں۔
چھوڑوں گا نہیں جنھوں نے مجھے ذلیل و خوار کیا ہے۔
آڈر آڈر۔۔ جج نے ہتھوڑا میز پر مارتے ہوئے کہا: اگلی سماعت تک عدالت برخاست کی جاتی ہے۔
بہ شُکریہ: وی نیوز