Pakistan Ko Bhi India Ki Tarz Ka Secular Mulk Banao
پاکستان کو بھی انڈیا کی طرز کا سیکولر ملک بناؤ
سن دو ہزار میں انڈیا یاترا بڑی بھرپور ان معنوں میں رہی تھی کہ بنا پولیس انکوائری کے پندرہ شہروں کے ویزے تمام وفد کے پاسپورٹ کی زینت بنے تھے۔ نا کرتے کرتے بھی دس شہر ایک ماہ میں خوب دیکھے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہوئی تھی کہ تین دن بنگلور میں پاک انڈیا پیس کانفرنس کے دوران جو نئے دوست بنے جن میں ہندو، مسلم، سکھ اور مسیحی تھے سب نے ہمیں اپنے اپنے فون نمبرز، گھر اور آفسز کے ایڈریس زبردستی دئے کہ جب ہم اس شہر کا دورہ کریں تو ضرور انھیں میزبانی کا شرف بخشیں۔
انڈیا پاکستان کے حالات کے پیش نظر "چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات "کے مستزاد اس موقع سے فائدہ اٹھایا کہ پھر یہاں آنے کا موقع ملے نہ ملے۔ اس وقت بھی ہر شہر میں مندروں کی بھرمار دیکھی اور اس میں پوچا کرنے والے لوگوں کا والہانہ پن بھی۔ جس طرح پاکستان میں ہر تیسری گلی میں بڑی بڑی مسجد و مدرسہ نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح وہاں ہر کچھ فاصلے پر وسیع و عریض مندر دیکھے۔ میں بذات خود ان مندروں کے اندر گئی پرساد بھی لیا، کیونکہ ابھی وہاں حالات اس نہج پر نہیں تھے غالباً، کہ ایک پاکستانی مسلم عورت کے مندر میں قدم رکھنے پر دھرم بھرشٹ ہوجاتا۔
بھانت بھانت کے لوگوں سے ملی سچی بات ہے بہت عزت و احترام ملا لیکن جب بھی کسی سے مذہبی انتہا پسندی پر یا ریاستی دہشتگردی پر بات کی تو اکثریت نے اختلاف ہی نہیں بلکہ بلاوجہ دفاع کرنا ضروری سمجھا۔ ہمیں وہی عفریت جو پاکستان کی رگوں میں سرایت کر چکا تھا وہاں بھی پنچے گاڑھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ چونکہ ہماری آنکھوں نے پاکستان کا آوے کا آوا بگڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی لئے ہم کھلے دل سے اپنے ملک اور اس میں ہونے والی ناانصافیوں، مذہبی انتہا پسندی پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔
اسکے باوجود اس وقت کئی ایسی عناصر تھے جن کو دیکھ کر واقعی احساس ہوا کہ انڈیا سے پاکستان ہجرت کرنا بالکل ایسا ہی تھا کہ ایک روشن خیال، ثقافتی، مذہبی رنگارنگی سے بھرپور معاشرے سے ایک قبائلی اور پسماندہ سماج کی طرف ہجرت کرنا۔ ایک بات جو اہم تھی کہ بین المذاہب شادیوں کا رواج بڑا عام تھا، خاص کر میرے لئے بڑے اچھنبے کی بات تھی۔ ہر شہر میں دو تین ایسے جوڑوں سے ملاقات ضرور ہوتی جو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک ساتھ شادی کے بندھن میں بخوشی بندھے ہوئے تھے۔
ایک سیکولر معاشرے کا انڈیا ایک عکس بہرحال ضرور تھا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ایک سیکولر انڈیا ہی پاکستانی عوام کے لئے فائدہ مند اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کے لئے نقصان دہ تھا کہ ہم اپنی ریاست کی ناانصافیوں پر کہہ تو سکتے تھے کہ پاکستان کو بھی ایک انڈیا کی طرز کا سیکولر ملک بناؤ۔
افسوس یہ ہے کہ اب ہم یہ کہنے جوگے بھی نہ رہے۔ اور یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ انڈیا کو اس سمت دھکیلنے کی ذمہ دار ہماری اپنی ریاست ہے۔