Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Karachi, Wo Teen Din

Karachi, Wo Teen Din

کراچی، وہ تین دن

سندھ کی بیٹی ہونا قابل فخر بات کیوں نا ہو، کہ یہ وہ مٹی ہے جو امن، محبت، بھائی چارگی اور دوسروں کو خود میں کھلے دل سے ضم کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ایک لمبے عرصے تک مہاجرین اس سرزمین پر آ کر آباد ہوتے رہے اور سندھ کے مقامی باسیوں نے انھیں دل سے خوش آمدید کہا۔ کراچی میں بے شمار دو بولنے والے زیادہ بستے ہوں یا پشتونوں کی پشاور سے بڑی آبادی کراچی میں رہائش پذیر ہو۔ یا پنجاب کے مختلف شہروں کے لوگ آ کر اس شہر میں برسوں سے آباد ہو گئے ہوں۔ لیکن یہ دھرتی سندھیوں کی ہے جو یہاں کی آبائی قوم ہے۔ آج بھی اس مٹی سے اپنائیت اور گرم جوشی کی ایسی لہر آتی ہے جو ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ میری جنم بھومی سندھ کا شہر کراچی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور واحد کاسمو پولیٹن شہر ہے جہاں پورے ملک کے بھانت بھانت کے لوگ آپ کو ملیں گے۔ کراچی نے بہت تباہیاں دیکھیں اور بدنصبیاں سہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہاں کے رہنے والوں میں جو جذبہ اور ولولہ ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔

دسمبر میں تین دن کے لئے کراچی جانا ہوا۔ کراچی میں مکتبہ دانیال کی روح رواں حوری اور ندیم خالد کے ہونہار بیٹے کی شادی میں شرکت پرانے دوستوں سے ایک لمبے عرصے کے بعد ملاقات کا ایک خوبصورت موقع تھا۔ کراچی جہاں میں نے اپنی زندگی کی تقریباً تین دہائیاں گزاریں۔ لیکن پچھلے اکیس برس سے میں کراچی سے دور ہوں۔

شادی کیا تھی ایک میلہ تھا جس میں تمام مرد و زن عزت و احترام اور دوستی کے جذبے سے سرشار ایک دوسرے سے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ دولہا دلہن کے خوب صورت نوجوان دوستوں کے ٹولے جن میں لڑکے لڑکیوں کی کوئی تفریق نہ تھی اسٹیج پر موسیقی پر تھرک رہے تھے۔ ہر دوست احباب کی اس تقریب میں شمولیت ایسی ہی تھی جیسے ان کے اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہو جب کہ حوری اور ندیم دوستوں کو ہلا گلا کرتے دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ہر کوئی حسب منشا اپنی موج مستیوں میں مصروف تھا لیکن کوئی کسی کو جج نہیں کر رہا تھا۔ کسی قسم کی کوئی تفریق نا تھی۔ کراچی کے لوگ ذہنی اعتبار سے آج بھی دوسرے شہروں کے باسیوں سے بہت آگے ہیں۔

مختلف شہروں سے آئے ہم خیال دوستوں کا ایک گلدستہ وہاں موجود تھا جنھوں نے اس محفل کو چار چاند لگا دیے تھے۔ سچ کہوں تو اپنے آبائی شہر کی اس پر رونق تقریب دیکھ کر دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ کراچی میں سیمینار، کانفرنسز، تھیٹر اور دیگر سرگرمیاں اتنی متواتر ہوتی ہیں کہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک ہی شہر ہے اور وہ ہے کراچی۔ بڑے عرصے بعد ایسی بہترین مہندی کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا۔ ہماری پیاری دوست ثمینہ نذیر عرف ببن خالہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی مہمان نوازی کا موقع نہیں گنوایا۔

کراچی میں مہندی کی تقاریب رات گئے تک چلتی ہیں سو ہم بھی کوئی دو بجے رخصت ہوئے۔ حیرت انگیز اور مسرت کی بات تھی کہ میں، ثمینہ اور میری بیٹی ضویا بڑے سکون سے انڈرائیو سروس میں ڈیفینس سے گلشن اقبال تک آئے۔ سوچا تھا کہ دوسرے دن آرام کیا جائے لیکن بھلا ہو ثمینہ صاحبہ اور ملک کی نامور لکھاری نور الہدی شاہ آپا کا کہ ایاز میلو لے جانے پر بضد رہیں۔ صبح ناشتے سے فراغت پاتے ہی نور آپا اپنی گاڑی میں ہمیں لینے پہنچ گئیں اور ہم تینوں ایاز میلو کی یاترا کو نکل پڑے۔

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں سندھ یونیورسٹی کی دو دبنگ خواتین پروفیسرز محترمہ عرفانہ ملاح اور امر سندھو نے آج سے تقریباً آٹھ سال قبل "ایاز میلو" کی بنیاد رکھی تھی۔ ہر سال ایاز میلو کی مقبولیت میں اضافہ ان خواتین کی محنت اور ہمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حیدرآباد میری امی کا شہر ہے۔ بچپن میں اکثر جانا ہوتا تھا۔ اس وقت کوٹری بیراج سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ ٹھاٹھیں مارتا سمندر دکھائی دیتا تھا اور اب عرصے بعد دیکھا تو احساس ہوا کہ نہر بھی اس سے زیادہ بہتی دکھائی دیتی ہوگی۔ پانی کی جگہ مٹی کے جابجا ٹیلے دیکھ کر دل واقعی دکھی ہوا۔

نور آپا سے دوران سفر سیاست، سماجیات اور ادب پر کھل کر بات ہوتی رہی۔ جس طرح کھانے کی طلب ہوتی ہے بالکل اسی طرح ذہنی نشو و نما کے لئے ایسی گفتگو کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے۔ سفر میں ہوں اور رستے میں ڈھابے سے سبزی اور دال نہ کھائیں ایسا ثمینہ کی صحبت میں ہونا ناممکن تھا۔ سو ہم نے یہ موقع بھی نہیں جانے دیا اور ہائے وے کے مشہور ڈھابے میں بیٹھ کر خوب ڈٹ کے گرم گرم روٹی سے دال اور سبزی کھائی۔

ایاز میلو کا انعقاد سندھ میوزیم میں کیا گیا تھا۔ اس میں چار پنڈال سجائے گئے تھے اور تمام پنڈال نوجوان لڑکے لڑکیوں سے کھچا کھچ بھرے تھے۔ ایک طرف سندھی ثقافت سے بھرپور مختلف اسٹال آنے والوں کو اپنی جانب کھینچتے تھے تو دوسری جانب سندھی کھانوں کے شائقین پیٹ پوچا میں مصروف نظر آئے۔ پروگرام کے شرکاء میں ناصر عباس نیر، عاصمہ شیرازی، شاہ محمد مری، جامی چانڈیو، اور سندھ کے وزیر تعلیم و ثقافت جناب سید سردار علی شاہ نے عرفانہ ملاح کی فی البدیہہ میزبانی میں پر مغز گفتگو کی۔ سید سردار علی شاہ ایک پڑھے لکھے اور فن کی قدر کرنے والے انسان لگے۔ تمام اسپیکرز نے اپنی گفتگو سے حاضرین کو محظوظ کیا۔

سندھ کی عوام میں سیکھنے کی جستجو دیکھ کر خوشگوار احساس ہوا۔ میری اس میلے میں آمد بھی پہلی تھی اور عرفانہ اور امر سندھو سے روبرو ملاقات بھی۔ لیکن ذرا بھی اجنبیت محسوس نہ ہوئی۔ ایسے تپاک سے ملیں کہ جیسے برسوں کا یارانہ ہو۔ عاصمہ شیرازی کی کتاب "کہانی بڑے گھر کی" کی رونمائی بھی ہوئی جس میں نورالہدی آپا اور محترم نذیر لغاری نے عاصمہ کی دل کھول کر پذیرائی اور ان کی اپنے شعبے سے لگن اور ہمت کی تعریف بھی کی، جس کی وہ واقعی مستحق تھیں۔ رات گئے تک سارے پنڈال عوام سے اسی طرح بھرے ہوئے تھے۔ یہ واقعی عوامی میلہ تھا۔

صبح ہی کراچی کے لئے نکلی تو رستے میں عاصمہ شیرازی کا فون آیا کہ کل ٹھیک سے ملاقات نا ہو پائی، آ جائیں ساتھ ہی ناشتہ کرتے ہیں۔ لیکن کراچی جلدی پہنچنے کی بنا پر ہم اکٹھے ناشتہ نہ کر سکے۔ عاصمہ شیرازی میں ایک میٹھی سی اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ اتنی کامیابی ملنے کے باوجود اتنی ملنسار خواتین کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

لیکن نورالہدی شاہ ہو یا عاصمہ شیرازی، عرفانہ ملاح، امر سندھو ہو یا حوری نورانی، ثمینہ نذیر یا بختاور مظہر یہ ساری خواتین وہ ہیں جو کسی بھی طرح کی احساس کمتری یا برتری سے بالاتر ہو کر اپنا کام کیے جا رہی ہیں اور معاشرے کو سنوارے جا رہی ہیں۔

تیسرے دن ملیر گئی تو وہاں مزید بدحالی اور گندگی کے ڈھیر نظر آئے۔ وہی ہموار سڑکیں جہاں ہم بچپن میں شام کو سائیکلیں دوڑاتے تھے آج خستہ حال اور ادھڑی ہوئی ملیں۔ ہر گھر کے بیچ وہ گلیاں جہاں ہمارے محلے کی باجیاں گرمیوں کی ہوادار دوپہروں میں اپنے پیاروں سے چوری چھپے خط و کتابت کیا کرتی تھیں ان ہی گلیوں کو اب لوگوں نے اپنے اپنے گھروں میں شامل کرکے اپنے گھر کشادہ لیکن محلوں کو تنگ اور حبس زدہ کر دیا ہے۔ وہی باجیاں جن کی شوخ ادائیں ہمیں مبہوت کیا کرتی تھیں اب سر تا پا عبایوں میں لپٹی درس سننے اور دینے میں ذرا کوتاہی نہیں برتتیں۔

وہی محلہ وہی لوگ لیکن رویے وہ نہیں رہے۔ خدا جانے کہ وہ بدل گئے یا ہم؟ یا پھر سب ہی کچھ بدل گیا ہے۔

لیکن اس میں شک نہیں کہ آج بھی سندھ دھرتی پیار کرنے والوں کی سرزمین ہے۔ ان تین دن میں کراچی اور حیدرآباد میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ اسلام آباد پہنچی تو حوری نورانی کا فون آیا کہ آج رات سارے دوست جو شادی میں آئے تھے میرے گھر آرہے ہیں تم بھی آ جاؤ۔ میں نے معذرت کی کہ میں تو اسلام آباد پہنچ چکی ہوں۔ تب احساس ہوا کہ بڑا مختصر دورہ تھا میرا کراچی کا۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo