Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sanober Nazir/
  4. Fikr o Falsafa

Fikr o Falsafa

فکر و فلسفہ

کہتے ہیں اچھی کتاب ہو یا فلم بار بار پڑھنی اور دیکھنی چاہیے۔ مثلاً قرۃ العین حیدر کا معرکتہ آرا ناول "آگ کا دریا" جتنی بھی بار پڑھیں تو ہر بار ایک نئے جہت سے تعارف ہوتا ہے۔

رینے ڈی کارٹ کے مشہور قول I think, therefore I am کو جناب جمشید اقبال نے اپنی کتاب "فکری روایات کا تنقیدی مطالعہ اور مقامی فکر و شناخت کا مقدمہ" لکھ کر عملی جامہ پہنایا ہے۔

فلسفہ پڑھنا، سمجھنا اور پھر فلسفیانہ مباحث اور روایات کا موازنہ کرکے انھیں بڑی صاف گوئی سے اس کتاب کی زینت بنا دینا کسی معرکہ سے کم نہیں تھا۔ نتیجہ اخذ کرنے کی ذمہ داری صاحب کتاب قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

ہر تہذیب میں دو متوازی مکاتب فکر موجود رہے ہیں ایک آئیڈیل ازم (مثالیت) اور دوسرا رئیل ازم (مادیت)۔ اس کی مثال اگر یونانی تہذیب میں دیکھی جائے تو ایک جانب دیومالائی کہانیاں (میتھالوجی) بھی تھیں تو وہیں مادیت پسند مثلاً ہیرا کلائیٹس، تھیلس اور ڈیموکریٹس بھی موجود تھے جن کے افکار سقراط تک پہنچے اور اس طرح "سوال کرنا" سقراطی طریقہ تعلیم کہلایا۔ دلچسپ بات ہے کہ سقراط نے بذات خود کچھ تحریر نہیں کیا۔ افلاطون نے اپنے استاد کے خیالات اور افکار کو اپنے مشہور "مکالمات افلاطون" میں قلمبند کیا۔

جیسا کہ یہ قیاس ہے کہ پاکستان میں فلسفہ پر کتابیں نہ لکھی جاتی ہیں اور نہ ہی ایسے خشک موضوعات کو پڑھنے والے قاری موجود ہیں۔ حالانکہ یہ سوچ مکمل سچ نہیں۔ آج بھی فلسفہ پر لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ "فکری روایات کا تنقیدی مطالعہ اور مقامی فکر و شناخت کا مقدمہ" جیسا کہ نام سے ہی عیاں ہے کے مصنف جمشید اقبال نے کتاب میں نہ صرف تاریخ میں رونما ہونے والے افکار پر تنقیدی بحث کی ہے۔ بلکہ اپنے قارئین کو پرانے علم الکلام سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنی مقامی فکر کو شناخت کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔

کتاب کا آغاز مغربی فلسفے سے ہی ہوتا ہے اور جیسا کہ فلسفہ کا بنیادی مقصد ہی تنقید یا صحیح غلط کی پرکھ ہوتا ہے۔ کتاب میں دور قدیم کے مختلف افکار اور روایتوں سے شروع ہوتی ہوئی بحث دور نقد کے آغاز تک آتی ہے۔ اس عہد کی بنیاد ڈالنے والے کانٹ نے اپنی کتاب کا نام بھی Critique رکھا تھا۔ کانٹ نے لفظ (Critique) یعنی تنقید یا محاکمہ پہلی بار استعمال کیا۔ جمشید اقبال نے مختلف حوالوں سے واضح کیا کہ اس اصطلاح کا کانٹ کے ہاں کیا مطلب تھا۔ اس کے علاوہ کتاب میں یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ اس کے ہاں reason سے کیا مراد تھی۔

المختصر، کانٹ کے کوئی دو سو سال کے بعد فرینکفرٹ تنقیدی اسکول کی بنیاد پڑتی ہے جس میں ہربرٹ مارکیوزے، میکس ہورک ہائمر، ایرک فروم اور تھیو ڈور ادورنو وغیرہ اس ادارے میں کارل مارکس، ہیگل اور سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات کی تعلیم دیتے تھے۔

" تنقیدی نظریہ" فلسفے کا ایک وسیع میدان ہے جو 20 ویں صدی کے پہلے نصف میں سامنے آیا۔ یہ فلسفہ، تاریخی اور سیاسی دونوں سطح پر، معاصر معاشروں کی مختلف خصوصیات کے تجزیہ کی طرف تیزی سے پھیلا لہٰذا بعد کے کئی مکاتب کو بہت حد تک تنقیدی مکتبِ فکر کہا جاسکتا ہے۔ مصنف اخلاقیات کے باب میں اس پر زور دیتے ہیں کہ مغربی فلسفہ جس نکتے پر آج پہنچا ہے وہ انسان یا حیات دوستی ہے۔

جمشید اقبال نے اپنے حصے کی شمع روشن کرتے ہوئے فلسفے کی تاریخ اس پیرائے میں لکھی ہے کہ جیسے کہانی سنائی جا رہی ہو۔ جگہ جگہ مختلف فلسفیوں کے فرمودات کو غالب، اقبال اور عبید اللہ علیم کے اشعار سے جوڑنا مصنف کے شعری ذوق کا بھی اظہار ہے۔

اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں پانچ ابواب ہیں جن میں فلسفیانہ فکرکے آغاز سے لے کر روح اور جسم کے تعلق اور اخلاقیات اور مذاہب ہر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔

دوسرے حصے میں محکوموں کے فلسفے کو موضوع بنایا گیا ہے اور یہی اس کتاب کا سب سے مضبوط پہلو ہے جس پر اردو میں کتابیں نایاب ہیں۔ اس باب میں افریقی اور امریکی محکوم طبقات کے استحصال اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کے فلسفے کو اجاگر کیا گیا ہے۔

آخری حصہ مشرقی فلسفے پر مشتمل ہے جس میں تاؤ، کنفیوشس، گوتم بدھ اور دیگر ہندوستانی فلسفوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چینی اور انڈین فکر کا تعارف بھی اسی مقصد کے لئے کرایا گیا ہے کہ دنیا اور زندگی کو دیکھنے اور سمجھنے کے یہ زاویے بھی نہایت معتبر رہے ہیں جن سے ہمارے رشتے بہت گہرے ہیں۔

جمشید اقبال نے ابتدائی فلسفے کی کہانی جونز لائیونز کی غاروں کے ناقابل رسائی حصوں سے شروع کی ہے۔ مصوری پر تحقیق سے شروع کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے آبا و اجداد وحشی نہیں بلکہ فنکار تھے اور نو آبادیاتی پروپیگنڈے کو "فکری آمریت" کا نام دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فلسفیانہ فکر کا آغاز حجری دور میں صرف ایک خطے میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں شروع ہو چکا تھا۔

سقراط سے قبل اور بعد میں آنے والے یونانی فلسفیوں اور مفکروں کی مابعدالطبیعات اور علمیات کے بنیادی مفروضات کا احاطہ اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ دیگر فلسفیانہ روایات کے درمیاں فرق اور مشترکات قاری کے لئے سمجھنا آسان ہو جاتے ہیں۔

مصنف نے چوتھی صدی قبل مسیح میں رواقی دبستان کے بانی زینو کے نظریہ روح اور جسم میں فرق کو فلسفہ جدید کے امام ڈی کارٹ کے نظریہ سے جوڑا ہے وہیں وہ تحقیق سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ بظاہر ڈی کارٹ کی علمیات نے مغرب کو نئی سوچ اور علمی بنیادیں فراہم کیں جبکہ بالتاسار کے مطابق ابن رشد نے اس کی راہ ہموار کی تھی۔

جمشید اقبال کانٹ کے نظریے کی جانب مائل دکھائی دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کانٹ سائنسی علوم کو بیک وقت ایک عظیم کارنامہ کی شروعات بھی گردانتا ہے اور اور دوسری جانب تباہی کا باعث بھی سمجھتا ہے۔

جمشید اقبال نے ایک طرف کانٹ کے اسباب و نتائج کے قانون پر سیر حاصل بحث کی ہے تو دوسری طرف برٹرینڈ رسل کے علم نفسیات کے استحصالی استعمال کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ چونکہ کانٹ کے فلسفہ پر مصنف نے قارئین کو کافی معلومات فراہم کی ہیں سو وہیں اس کے نقادوں ہیگل اور ارتھر شوپنہاور کی تنقید کو بھی موضوع بنایا ہے۔

عہد عتیق سے مابعد از جدیدیت میں الحاد کے پس منظر پر بڑی جرات سے قلم اٹھایا گیا ہے۔ الحاد کی مختصر تاریخ نامی باب میں مذہب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ مذہب محکوم سازی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس کے بعد انہی اصولوں کی روشنی میں محکوموں کے افکار کے طور پر سامنے لائے گئے۔

وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ابراہیمی مذاہب میں خدا پرست تو موجود ہیں لیکن ملحدوں کا کوئی ذکر نہیں؟ اس کا قصوروار وہ "روایتی مورخین" کو گردانتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی رنگارنگی کو ختم کرکے یک رنگی کو پیش کیا۔

عمومی طور پر فلسفہ پر جب بھی بات کی جاتی ہے تو یونانی مفکر اور ایتھنز ہی ذہن میں ابھر کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔

لیکن مصنف نے اس کتاب میں اس اہم پہلو کو اٹھایا ہے کہ فلسفہ، افکار اور روایات پر صرف مغرب کی اجارہ داری ہی کیوں؟ فلسفہ کی تاریخ میں اگر مغرب میں یونانی مفکرین صفحہ اوّل پر ہیں تو مشرق میں کنفیوشس، لاؤزی، بدھا، نظریہ حیات کی تشکیل میں مصروف عمل تھے اور دوسری جانب مسلم دنیا میں جابر بن حیان، محمد بن زکریا رازی، ابن رشد اور ابو العلا المعری جیسے مفکرین بھی موجود تھے۔

جمشید اقبال تحقیقی بنیادوں پر مشرقی اور دیگر فلسفہ حیات کو مغربی و یونانی افکار کے ہم پلہ قرار دیتے ہوئے ثابت کرتے ہیں کہ "یونانی فلسفی" زینو "نے تضادات کی مدد سے حرکت کی نفی کی تھی تو اسے پہلے مشرق میں ناگ ارجنا کہہ چکا تھا کہ" علم کے ہر دعوے کی شروعات کسی نامعقول اصول سے ہوتی ہے "اور" واقعات و تصورات کے مابین علتی رشتوں کا انکار دوسری صدی عیسوی میں ناگ ارجنا نے ہی کیا تھا جس پر کانٹ نے اٹھارہویں صدی میں مزید روشنی ڈالی۔

اسی طرح اساطیری اور ابراہیمی مذاہب کے مقابلے میں مشرقی مذاہب چاہے وہ تاؤ مت ہو یا بدھ مت، براہمن ازم ہو یا شنٹو ازم یہ سب فطرت کے زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے ماحول دوست افکار کے پیروکار تھے۔

کتاب میں امریکی انڈینز فلسفہ، اور وسطی و لاطینی امریکی فلسفہ کی مماثلت پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ مغربی افکار کی نسبت امریکی انڈینز اور وسطی و لاطینی امریکہ کے قدیم باسی ازٹیک بھی فطرت کو تسخیر نہیں بلکہ اسے مستحکم کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ افریقی شراکتی فلسفہ کی روایت "کیسے جاننا ہے" اور مغربی افکار "کسی چیز کے بارے میں جاننے کی گردان" کے مابین فرق کو بھی کتاب میں بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

الحاد کے تاریخی پس منظر میں چینی افکار میں خدا کا تصور موجود نہیں۔ جبکہ ہندوستان کی دو روایات "لوکائیتا" اور "رگ وید" کی تھیں جس میں اول الذکر میں خدا یا موت کے بعد کا کوئی تصور نہیں جبکہ آخرالذکر میں خدا موجود ہے۔

ہزاروں سال قبل ان خطوں میں فلسفیانہ دبستانوں کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کے برعکس یہاں عقائد پر تنقید کرنے والے اپنے خیالات کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ جب کہ مغرب میں انیسویں صدی کو باقاعدہ الحاد کی صدی گردانا جاتا ہے چاہے وہ کارل مارکس کا نظریہ حیات ہویا فیور باخ کی ملحدانہ شرحیں یا نطشے کا خدا کی وفات کا اعلان۔

جمشید اقبال نے ہندوستان کی ہزاروں سال قدیم روایت سامکھیہ کے بانی کپل اور سترہویں صدی کے ڈی کارٹ کے چند افکار میں مماثلت دکھانے کا مقصد میری رائے میں غالباً قارئین کو یہ اطلاع پہنچانا ہے کہ مشرقی یا دیگر خطوں میں بھی فلسفیانہ بحث ہوتی رہی ہیں لیکن نو آبادیاتی نظام نے افریقی، لاطینی و وسطی امریکی افکار کو اس لئے مغربی فکر سے ہیچ جانا کیونکہ مغربی فلسفہ کو دستاویزی شکل دی جا چکی تھی جبکہ محکوم قوموں کی فکر سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی۔

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ہندوستانی روایات مثلاً رگ وید اور لوکائیتا کو دستاویزی شکل دی جا چکی تھی اس لئے آج بھی ہندوستانی افکار دنیا کے قدیم ترین روایات کا درجہ رکھتے ہیں۔

جمشید اقبال اس افسوسناک پہلو پر بھی گریہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب سے ہم مکمل پہلو تہی کرتے ہوئے عرب ثقافت کے پیچھے بھاگتے چلے گئے ہیں جس سے ہماری کبھی کوئی نسبت نہیں رہی۔

مصنف نے بڑی نفاست سے حملہ آوروں پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ "حملہ آور خود کو برتر اور حاکم سمجھنے کے زعم میں اتنے اندھے ہو جاتے تھے کہ مفتوحہ علاقے کی ثقافت، زبان، تعلیمات اور روایات سے سیکھنے کے بجائے اس کو روند نا باعث فخر سمجھتے تھے۔ کسی بھی جنگ میں شکست کھانے کا مطلب علم سے بے بہرہ ہونا ہرگز نہیں ہوتا۔ "

کتاب پڑھتے ہوئے کئی دکھ بھی دامن گیر ہوتے ہیں کہ جن باتوں پر زمانہ قدیم میں ہمارے اپنے خطے کے مفکرین بحث و مباحث میں مصروف تھے، ان افکار کا عشر عشیر بھی ہم آج کے دور میں زبان پر لاتے خوف محسوس کرتے ہیں۔

مغرب میں رینے سانس کی تحاریک ہو یا رقص اور گانوں پر مشتمل افریقی فلسفہ حیات یا یوگا کو متعارف کروانے والے قدیم ہندوستانی فلسفیانہ افکار ہوں، تاریخ کی طالب علم اور فنون لطیفہ کی شوقین ہونے کی بنا پر ان موضوعات نے ہمیشہ مجھے متاثر کیا ہے۔

کتاب میں پاکستانی قارئین کے سامنے یہ بات رکھی گئی ہے کہ لاطینی اور وسطی امریکی فلسفی اور ادیب کس طرح طاقتور کی طرف سے متعارف کرائے گئے غیر متعلقہ موضوعات پر سوال اٹھا رہے ہیں اور پرانے علم الکلام سے جان چھڑا کر ان جہتوں پر سوچ رہے ہیں جن سے ان کے مسائل واقعی حل ہو سکیں۔ غالباً اس سے قبل اردو میں فلسفے پر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ تاثر نمایاں نہیں رہا کہ ہمارے خطے کی روایات و فلسفہ ہماری میراث ہے اور کسی دوسرے کے نقطہ نظر سے اسے دیکھنا یا سمجھنا درست نہیں۔

فلسفہ پڑھنے کا مقصد فلسفیانہ، اور تنقیدی انداز میں سوچنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ کتاب اسی بنیادی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے تاکہ پاکستانی قارئین بھی تنقیدی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے پرائے علم الکلام سے آزاد ہو کر ایسی فکر یا فریم ورک اپنا سکیں جو ان کے مسائل حل کرتا ہو۔

اس کتاب میں جمشید اقبال بارہا بیرونی علم الکلام سے جان چھڑانے کا مخلصانہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں ایسی کتابیں جن میں سہولت سے مختلف فلسفہ ہائے حیات، روایات اور مذاہب پر تنقید اور بحث کی گئی ہو خال خال ہی نظر آتی ہیں اس لئے تاریخ، فلسفہ کے شیدائیوں کے علاوہ نئی نسل کو نئی جہتوں سے روشناس کروانے میں بھی یہ کتاب بہت معاون ثابت ہوگی۔

جمشید اقبال ایسی نادر اور تحقیقی مکالمے سے بھرپور کتاب لکھنے پر واقعی تہہ دل سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔

Check Also

Jadu Toona Aur Hum

By Mubashir Aziz