Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Baghi Aurten

Baghi Aurten

باغی عورتیں

20 دسمبر 2020 کی خنک دوپہر کریمہ بلوچ نے اپنا گرم کوٹ پہنا اور حسب معمول اپنے شوہر کی طرف مسکرا کر بولی "تھوڑی چہل قدمی کرکے آتی ہوں"۔ خوبصورت چہرے اور چمکتی ہوئی آنکھوں والی کریمہ اکثر جھیل کے کنارے گھنٹوں ایسے ہی وقت گزارتی تھی۔ شاید یہاں اسے تربت کی ساحلی پٹی سے کوئی نسبت محسوس ہوتی ہوگی۔ یہ کریمہ کی زندگی کی آخری دوپہر تھی۔ اچانک صفحہ ہستی سے غائب ہو جانے کے دو دن بعد اس کی پانی میں تیرتی ہوئی لاش ملی۔ جس عفریت سے بھاگ کر وہ کینیڈا آئی تھی اس نے یہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور آخرکار اس دبنگ بہادر عورت کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا۔

کیسا عجب اتفاق تھا کہ چند ماہ پہلے ہی ایک نوجوان بلوچ صحافی سجاد حسین کی لاش بھی اسی طرح سویڈن کے دریا فائرس میں پائی گئی تھی۔ سجاد "بلوچستان ٹائمر" کا بانی اور چیف ایڈیٹر تھا اور کریمہ بلوچ کی طرح جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالتی قتل پر کھل کر تنقیدی آرٹیکل لکھتا تھا۔ جس طرح کریمہ جان لینے کی دھمکیوں سے بھاگ کر کینیڈا آئی تھی بالکل اسی مانند سجاد حسین نے سویڈن میں سیاسی پناہ لی ہوئی تھی۔

زندگی اور امید سے بھرپور دونوں نوجوانوں کو ایک ہی طرز کی موت دی گئی کہ دونوں کا قصور بلوچ قوم کی بھلائی کے خواب دیکھنا تھا۔

تربت کی کریمہ، بلوچ قوم کی رانی تھی۔ ہر وہ عورت جو اپنے بیٹے، شوہر، بھائی کی جبری گمشدگیوں اور ان کی مسخ شدہ لاشوں پر ریاست کے سامنے بے بسی اور بے زبانی کی داستان تھی، کریمہ بلوچ ان سب کی آواز تھی۔

کہتے ہیں ریاست عوام کی ماں ہوتی ہے لیکن بلوچوں کی ماں کریمہ تھی۔ اس کی موت پر بلوچستان میں ایک خاموش طوفان کی سی کیفیت تھی۔ کراچی لیاری میں نماز جنازہ پڑھانے کے لئے لاکھوں کا مجمع جمع تھا لیکن کریمہ کی میت بالا بالا ہی یہ سوچ کر تربت پہنچا دی گئی کہ طوفان کا رخ مڑ جانے سے اکثر سمندر کی طغیانی کم ہوجاتی ہے۔

لیکن کریمہ بلوچ کے قتل نے بلوچ قوم بالخصوص بلوچ عورتوں کو ایک بپھرے ہوئے طوفان میں تبدیل کر دیا اور یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سڑکوں پر آ نکلا۔ آج کریمہ کی موت کو تین برس سے اوپر ہوچکے ہیں لیکن بلوچ عورتوں کے دل میں غم و غصے کی آگ ابھی تک دہک رہی ہے۔

ایک کریمہ بلوچ کی موت نے ہزاروں"کریماؤں" کو جنم دے دیا تھا۔ اس بار ان سب کی آواز "ماہ رنگ بلوچ" بنی۔ جس نے بچپن میں اپنے باپ کو اغوا ہوتے ہوئے دیکھا اور پانچ سال بعد اِس بیٹی نے مسخ شدہ لاش کی صورت میں باپ کا آخری دیدار کیا۔ پانچ سال وہ بھی سب گھر والوں کی طرح اسی تذبذب میں رہی تھی کہ آیا اس کا باپ زندہ ہے یا مار دیا گیا ہے؟

کیا یہ کرب موت سے بدتر نہیں؟ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ لاچاری و بے بسی کے اذیت ناک دور بلوچستان کے کم و بیش ہر گھر کی کہانی ہیں صرف کہانی سننے اور دیکھنے والے سماعت و بصارت سے محروم ہیں۔

اس بے حس سماج میں کسی کو بھلا کیا دلچسپی کہ ان مظلوم بلوچوں کے دکھڑے سنیں جن کے پیاروں کو اچانک سے لاپتہ کر دیا گیا ہے؟ لیکن اس بار بلوچ عورت نے حکومتی اداروں سے جواب طلبی کے لئے کمر کس لی تھی۔ ان خواتین کے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا اور نہ اب ان خواتین کے پاس گنوانے کو کچھ باقی رہا تھا۔

یہ نوبت اچانک نہیں آئی پچھلے تقریباً ستر برسوں سے بلوچ عوام کے ساتھ بھی ہماری ریاست نے سوتیلوں والا سلوک ہی روا رکھا ہے جیسا کہ ماضی میں بنگالیوں کے ساتھ رکھا گیا تھا اور حیرانی اس بات کی ہے کہ 1971 کے سانحے سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا نہ سمجھا۔

پچھلے ماہ بلوچ خواتین ماہ رنگ کی سربراہی میں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف لانگ مارچ کرکے دارالحکومت پہنچی تو سرد موسم کے اس عالم میں ان نہتی عورتوں پر انتظامیہ نے غیر انسانی سلوک کی انتہا کردی تھی۔ انھیں اپنے ہی ملک کے دارالحکومت میں داخل ہونے سے پہلے ڈی پورٹ کرنے کے انتظامات کیے جا رہے تھے جیسے کہ بلوچ عوام پاکستان نہیں کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں۔

جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بیٹھی ہوئی سینکڑوں بلوچ خواتین روز صبح ہوتے ہی اپنے ہاتھوں میں اپنے گمشدہ پیاروں کی تصاویر پکڑ کر اس آس میں بیٹھ جاتی کہ شاید اب کوئی حکومتی عہدیدار آئے اور ان کی داد رسی کرے۔ ان میں اکثریت پندرہ سے بیس سال کی عمر کی بچیوں کی تھی جو اپنی تعلیم چھوڑ کر یہاں دھرنا دیے بیٹھی تھیں۔ ان کا تعلق بلوچستان کے مختلف خطوں سے تھا، کوئی کوئٹہ سے تو کوئی تربت کی تھی، کسی کی جنم بھومی خضدار تو کوئی آواران کی رہائشی تھی، کسی کا تعلق گوادر سے تھا تو کوئی ڈیرہ بگٹی یا خاران سے اپنا رشتہ بتاتی تھی۔ لیکن ایک نسبت مشترک تھی کہ سب کی کم و بیش ایک جیسی روداد تھی اور دکھ سانجھا تھا۔

کسی کا بھائی دس سال سے لاپتہ ہے تو کسی کا شوہر آٹھ سال سے، کسی کے بیٹے کو رات کی تاریکی میں نو سال پہلے اٹھایا گیا تھا تو کسی کے چاچے، مامے کو کئی سال پہلے دن دیہاڑے صفحہ ہستی سے غائب کر دیا گیا ہے۔

ہر کہانی دوسری سے زیادہ سینہ چھلنی اور شرمسار کرتی محسوس ہوئی۔ ان عورتوں کے دکھ اور بے چارگی سے لبریز واقعات سن کر تسلی کے دو بول بھی بولنے کی ہمت و سکت جواب دے گئی۔

شاید میں اور آپ ان کے دکھ کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جو ان حالات و واقعات سے گزر چکے ہوں۔ بلوچ عورتیں ہزاروں میل چل کر اپنی ریاست کے مقتدرہ حلقوں سے بنا خوف و خطر یہ چند سوالات کرنے اسلام آباد آئی تھیں۔

آخر یہ انسانیت سوز واقعات کب تک رونما ہوتے رہیں گے؟ ریاست کے بچے کب تک اپنی جان گنواتے رہیں گے۔ کب تک آئین پاکستان اور قانون کی دھجیاں بکھیری جاتی رہے گیں؟

اگر میرا بیٹا، شوہر، بھائی، ماما، چاچا، بھتیجا یا بھانجا اس ریاست کے مجرم ہیں تو قانونی و عدالتی کارروائی سے اجتناب کیوں برتا جاتا ہے؟ کب تک ہمارے مرد ماورائے عدالت قتل کا شکار ہوتے رہیں گے؟ کب تک ہم اپنے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کو کندھا دیتے اور دفناتے رہیں گے؟

یہ بلوچ عورتیں اس عزم کے ساتھ بے یارو مددگار دھرنا دیے بیٹھی تھیں کہ حکومت وقت سے ان سوالات کے جواب لے کر ہی واپس جائیں گیں۔

ملاحظہ کیجئے ہماری ریاستی پالیسی کہ بجائے ان کی شکایات اور مسائل سنے جاتے انھیں بہلا پھسلا کر واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ نیشنل پریس کلب نے ریاستی حکام کو ایک خط کے ذریعے ان بلوچ خواتین کے دھرنے کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی کہ اس سے پریس کلب کو شدید خطرات لاحق ہیں یعنی جس جگہ کو اظہار رائے کی آزادی کا مرکز جانا جاتا ہے وہاں بھی بلوچ عوام کی آواز کو دبا دیا گیا۔

ہو سکتا ہے چند دن جبری گمشدگیاں رک جائیں، مسخ شدہ لاشیں ملنا بند ہو جائیں اور بلوچوں کو اپنے پیاروں کو کھونے کا غم نہ سہنا پڑے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کے بعد آنے والی حکومت اس سنگین مسئلے کا کوئی دیرپا اور مستقل حل نکال پائے گی؟

وسیم سجاد تابش براہوی زبان کے شاعر اور لسبیلہ کی ایک جامعہ کے طالب علم تھے انھیں بظاہر جبری گمشدگیوں پر شاعری کرنے کی پاداش میں چند سال قبل موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، ان کے چند اشعار کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔

"ہم بے گھر ہیں

اور ہمارے بھائی لاپتا ہیں

اس لیے ہر خوشی بے رنگ ہے

جن لوگوں کے پیارے لاپتا ہیں ان کے دل اور جگر زخمی ہیں"۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan