Azad Bangladesh Par Ik Nazar
آزاد بنگلہ دیش پر ایک نظر
انگلینڈ میں اپنے چند سالہ قیام کے دوران میرے بھانت بھانت کے دوست احباب بنے۔ جن میں سے چند ایک سے دوستی آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے جیسی دو دہائیوں قبل تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میری یہ دوستیاں انڈین اور بنگلہ دیشیوں کے ساتھ آج بھی قائم و دائم ہیں جو کہ ہمارے دشمن ممالک گردانے جاتے ہیں۔ انڈین دوست بنانے میں کوئی تگ و دو نا کرنی پڑی کہ "تقسیم، قتل و غارت گری اور ہجرت" کا غم دونوں ملکوں کے لوگوں کا سانجھا ہے لیکن جو بنگالیوں پر گزری اس کی تلخی اب تک کسی پاکستانی کو دیکھ کر ان کے منہ کے ذائقے کو کڑوا کر دیتی ہے۔
اس بات کا ادراک مجھے تب ہوا جب اپنی جاب پر ساتھ کام کرنے والے بنگالی ساتھیوں کو حسب عادت کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا اور انھوں نے بڑی شائستگی سے نا آنے کا بہانہ تراش دیا۔ چونکہ مطالعہ پاکستان کے ساتھ ساتھ اصلی والی تاریخ سے بھی تھوڑی بہت شناسائی تھی تو اس وقت میرے ذہن میں 1971 کی جنگ میں اپنے ہی ملک میں، اپنی ہی فوج کے ہاتھوں نہتے باسیوں پر تشدد، ریپ اور گولیاں برسانے جیسے مناظر فلم کی صورت گھومنے لگے۔ میں بنا کسی جرم کی پاداش کے بھی مجرم گردانی گئی۔ لیکن فیض صاحب کے اس شعر
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
نے اس حقیقت کو آشکار کیا کہ مجھے کئی مدارات کرنی درکار ہیں ان کے زخم کو تھوڑا سا مندمل کرنے کو جو زخم میں نے نہیں لگائے۔ اس کالک کو اپنے منہ سے دھونے کے لئے نا جانے کتنا وقت لگے گا جو اس وقت کے مغربی پاکستان کی عوام کے منہ پر ملی گئی تھی۔
لیکن اس سچائی سے بھی فرار نا ممکن تھا کہ ہماری مہمان نوازی کو تا دیر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے سو کچھ عرصہ تامل کے بعد میں نے پھر سے دعوت دے ڈالی۔ چونکہ یہ عید ملن پارٹی تھی اور میرے ہم مذہب کے علاوہ ہندو، عیسائی اور سکھ سارے ہی دوست مدعو تھے تو اس بار کوئی بھی انکار کی تاویل کارگر نا ہوتی اس لئے میرے بنگالی دوستوں کو بھی آنے کی حامی بھرنی پڑی۔
میں کسی بھی شک سے بالاتر ہو کر یہ بات حلفیہ کہتی ہوں کہ پاکستانی کھانوں کا ذائقہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور ہمارے بنگالی دوستوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا کہ پھر مداراتوں کا سلسلہ ایسا چلا کہ رکا ہی نہیں۔ لیکن ہر ملاقات میں سقوط ڈھاکہ زیر بحث نا آئے یہ نا ممکن تھا اور اس وقت ان دوستوں کے لہجوں میں غم و غصہ در آتا تھا پر وہ قابل جواز ہوتا تھا۔ اس لئے میں انھیں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے دیتی لیکن آخر میں کوئی ایسا واقعہ ضرور ان کے گوش گزار کرتی جس میں یہ بات واضح ہوتی کہ سقوط ڈھاکہ پاکستانی عوام کے لئے ایک المیہ ہے اور سانحہ پر کتنی آنکھیں زار و قطار روئیں ہیں۔
21 سال پہلے کم از کم اتنا ضرور تھا کہ اس وقت تک پاکستان کے معاشی اور سماجی حالات اتنے دگرگوں نا تھے۔ سبز پاسپورٹ کی اتنی جگ ہنسائی نہیں ہوئی تھی اور نا اس وقت مذہبی دہشت گردی کا ٹھپا لگا تھا۔ پاکستان کی فی کس آمدنی اور شرح پیداوار بنگلہ دیش سے زیادہ تھی لیکن جس تیز رفتاری سے ہماری آبادی دن بدن بڑھ رہی تھی وہیں بنگلہ دیشی حکومت آبادی کی روک تھام اور اپنی معیشت کو بڑھانے کے لئے بہت تن دہی سے کام کر رہی تھی اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والے مذہبی گروہوں کو بلا خوف و خطر منافرت اور جہالت پھیلانے سے باز رکھ رہی تھی۔
جبکہ ہمارے ملک میں اس کا الٹ ہوا۔ ہم مذہبی انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے رہے اور آبادی کا سیلاب بڑھتا چلا گیا۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمان بھی صرف ساڑھے تین سال ہی اقتدار میں رہ پائے پھر فوج قابض ہوگئی۔ 1975 سے 1990 تک وہاں بھی آمریت نے پنجے گاڑے رکھے۔ لیکن ان 15 سال میں جو معاشی اور معاشرتی بدحالی ہوئی اسے بنگلہ دیش نے کافی سبق سیکھا جن میں دو سرفہرست ہیں۔ فوج کو ملکی امور سے لا تعلق کرنا اور مذہبی انتہا پسندی کے بجائے سیکولر طرز زندگی کو فروغ دینا۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے 30 سال سے وہاں فوج کو ان کی بیرکوں اور سرحدی معاملات سے آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور ملاؤں کو مسجدوں سے۔ یعنی ملا ملٹری الائنس کو یکسر مسترد کر دیا۔ بنگلہ دیش نے اس تاثر کو بھی نظرانداز کر دیا کہ ہمسایہ ممالک سے ان کے ملک کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔ جس کے پیش نظر انہوں نے اپنے دفاعی بجٹ کو محدود کرکے اپنے بجٹ کے بڑے حصے کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے مختص کیا اور اپنے ہمسایہ ممالک سے مفاہمتی تعلقات قائم کرنے کی راہ چنی۔
اسی لئے آج بنگلہ دیش پاکستان کی طرح ایک سیکیورٹی ریاست بننے سے بچ گیا۔ بے شک وہاں بھی جمہوریت قابل رشک نہیں لیکن اس کو جواز بنا کر آمریت کی راہ ہموار کرنا یا منتخب حکومتوں کو گرانا ایک گھناؤنا جرم اور غداری کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ روایت مزید مضبوط ہو کر ایک تناور درخت کا روپ دھار چکی ہے۔ دوسری جانب ہمارے مقتدرہ اداروں نے مذہبی انتہا پسندی کو بھرپور فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس کا باقاعدہ آغاز ضیاء الحق کی آمریت میں خوب زور و شور سے کیا گیا۔ آج پاکستان کی گلی گلی میں لوگ اپنی ذاتی پرخاش کا بدلہ توہین رسالت کا الزام لگا کر بڑی آسانی سے کسی کا بھی بے دردی سے قتل کرکے لے رہے ہیں۔
چند روز قبل بنگلہ دیش نے اپنی پاکستان سے علیحدگی کے 50 سال پورے ہونے پر میڈیا میں اپنی معاشی ترقی کا سوشل میڈیا پر چرچا کیا۔ بنگلہ دیش کا شمار ایشیاء کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ابھی بھی وہاں بہت سے مسائل موجود ہیں جن کو حل ہونے میں وقت درکار ہے۔ لیکن بات اگر پاکستان سے موازنہ کی ہو تو ترقی کے تمام اشاریے یہی نشان دہی کر رہے ہیں کہ بنگلہ دیش کی صورتحال ہم سے کئی گنا بہتر ہے۔
جس دن بنگلہ دیش کے عوام اپنے ملک کی ترقی کرتی ہوئی شرح نمو، بڑھتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، اوسط عمر اور فی کس آمدنی میں اضافے بر نازاں ہو رہے تھے اسی روز ہمارے ملک خداداد میں ایک معصوم سری لنکن پر اس کے ساتھ فیکٹری میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین بہیمانہ تشدد اور اس کی لاش کو سرعام جلا کر سیلفیاں لے رہے تھے اور پوری قوم کے منہ پر مزید کالک مل رہے تھے۔ جو بیج ضیاءالحق اور ان کے ادارے نے 45 سال پہلے بویا تھا اس کی فصل اب ہم سب کاٹ رہیں ہیں۔ اور نہیں معلوم مزید کب تک کاٹیں گے کہ اب کوئی امید بر نہیں آتی۔
میری اپنی بنگلہ دیشی دوستوں سے گاہے بگاہے واٹس اپ پر بات چیت رہتی ہے۔ دو روز قبل اس کی کال آئی تو وہ کافی خوش تھی کہ وہ اپنے ملک کی پاکستان سے آزادی کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں اور آج دنیا میں ان کا ملک ترقی کے منازل کو تیزی سے عبور کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ اس سے بات کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ اس کے لہجے میں خوشی کے جذبات کے ساتھ ساتھ ہلکا سا فخر بھی جھلک رہا تھا، اور کیوں نا ہو فخر؟ انھوں نے تاریخ سے سبق جو سیکھا ہے۔ مجھے لگا کہ وہ دل ہی دل میں مسکرا رہی ہے کہ دیکھو تم لوگ ہمیں بھوکے کالے بنگالی کہتے تھے نا، تو دیکھو غور سے کہ کون بھیک مانگ رہا ہے؟ اور کن کے چہرے اپنے کرتوتوں کی بنا پر پوری دنیا میں کالے ہو رہے ہیں؟