Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Aurat Ki Zindagi Ke Adwar

Aurat Ki Zindagi Ke Adwar

عورت کی زندگی کے ادوار

شش شششش چپ، چپ وہ آرہی ہے۔ وہ جیسے ہی اپنی ہم عمر کزنز کے جھرمٹ میں پہنچتی تو ساری لڑکیوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا۔ وہی کزنز اور دوستیں جو اس کے آنے سے پہلے سر جوڑے سرگوشیوں میں کوئی رازدارانہ بات بڑے انہماک سے کررہی ہوتیں، لیکن اس کے سامنے کرنے سے کتراتی تھیں۔

وہ اپنی ہم جولیوں کے اس رویے پر ہمیشہ تذبذب کا شکار ہوجاتی تھی۔ وہ بھی ان رازوں میں شمولیت کی خواہش مند رہتی جسکے پردے دوسری لڑکیاں آپس میں اٹھا رہی ہوتی تھیں۔

وہ اپنی عمر کے تیرہ برس مکمل کر چکی تھی لیکن بلوغت کے آثار نمایاں ہونے کے باوجود ماہواری ابھی جاری نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی تمام ہم عمروں میں واحد لڑکی تھی جسے اب تک نہ ماہواری آئی تھی اور نہ اسے اس بارے میں جانکاری تھی، کیونکہ نہ اس وقت سوشل میڈیا تھا نہ چینلز اور نہ ماحول سازگار۔ حتٰی کہ ماؤں کے ساتھ بھی رشتہ احترام و خوف سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا کہ ایسے معاملات پر کھل کر نہ سہی کم از کم اشاروں کنائیوں میں ہی بات سمجھا دی جاتی۔

خاندان میں شادیوں میں کم عمر بچیوں کا من پسند موضوع بلوغت اور ماہواری ہوتا تھا کیونکہ جس بھی مدعے کو سات پردوں میں چھپا کر رکھا جائے اس کو کھولنے کی خواہش اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ابھی بلوغت کی اس منزل کو عبور نہیں کر پائی تھی تو ظاہر ہے ماہواری کی بات اسکے سامنے کیونکر کی جاتی۔

آج بھی تمام کزنز خاندان کی شادی میں اکٹھی ہوئی تھیں۔ اسے پچھلے دو چار روز سے پیٹ میں انجانا سا درد اٹھتا، کچھ لمحوں ٹہرتا پھر ہلکا پڑ جاتا۔ وہ چاہ کر بھی کسی سے اس درد کا ذکر نہیں کر پارہی تھی۔

وہ سفید چاندنی سے ڈھکے بستر پر اپنی ہم جولیوں کے اس ناروا سلوک اور پیٹ میں بار بار اٹھتے مروڑ پر آنسو بہاتے بہاتے نہ جانے کب سوئی کہ صبح سب کی چہ مگوئیوں پر ہی اس کی آنکھ کھلی۔ اسکے بستر پر بچھی سفید چاندنی پر گلابی رنگ یا سرخ دھبے نمایاں تھے۔

اسکی ماں کے چہرے پر پریشانی اور غصہ عیاں تھا جبکہ ساری کزنز مسکرا رہی تھیں۔ وہ سٹپٹا گئی۔ اس حقیقت سے بے خبر کہ آج قدرت نے اسے کامل کردیا ہے۔ اسے یوں لگا کہ جیسے کسی جان لیوا بیماری نے اُسے آن گھیرا ہے۔

ماہواری کی باریکیاں سمجھانے کے لیے اسے ایک جہاندیدہ آپا کے حوالے کیا گیا۔ "ڈرو نہیں پاگل۔ ساری لڑکیوں کی جو کھسر پھسر تمھارے آنے پر بند ہوجایا کرتی تھی، آئندہ سے نہیں ہوگی کیونکہ تم اب بڑی ہوگئی ہو"۔ آپا نے ہنستے ہوئے ایک ململ کا کپڑا اسے تھماتے ہوئے یہ کہا۔

اُس سے ٹھیک طرح سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ "اتنی جلدی جوان ہونے کی پڑی تھی، اب دور رہنا لڑکوں سے"۔ اسکی بے ترتیب چال دیکھ کر ماں نے ترش لہجے میں بیٹی کو ایسے تنبیہ کی جیسے ماہواری آنا اس کا قصور ہو۔

وہ ماہواری یا حیض کی الف ب سے بھی واقف نہ تھی اور جب اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اسے ماہواری کہتے ہی یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ہر ماہ قدرت کی طرف سے عورت اس "سائیکل" سے گزرتی ہے۔

ہر مہینے؟ اس کے اوسان خطا۔

چھ دن بعد پاک ہو کر نہانا ہے۔ تین چار دن بالکل پانی جسم پر نہ ڈالنا۔ سمجھی اور ہاں اب بھاگ دوڑ کرتے نہ دیکھوں تمھیں میں۔ "ماں نے سختی سے احکامات صادر کیے لیکن اماں میرے اسکول میں فٹ بال اور جمناسٹک؟"بھاڑ میں گیا تمھارا جمناسٹک اور فٹ بال کھیلنا۔ تمھارے ابا نے پہلے ہی خوب بگاڑ دیا ہے تمھیں بس اب جوان ہوگئی ہو تم"۔

اور وہی ہوا ماہواری کیا شروع ہوئی اسکا گلی میں کھیلنا کودنا، سائیکل چلانا، اسکول کی اسپورٹس سرگرمیاں سب بند کر دی گئیں۔

اکثر لڑکیاں اسی ذہنی الجھنوں کا شکار رہتی ہیں جو جو پٹی بڑی بوڑھیاں انہیں پڑھا دیتی ہیں کہ "حیض آنے کے بعد تمام جسمانی ایکسرسائز سے اجتناب ہی ان کی صحت کے لیے مفید ہے"۔

اُسے قدرت کے اس نظام سے اور ماہواری کے نام سے نفرت محسوس ہونے لگی تھی۔ جیسے جیسے تاریخ قریب آتی اسے وحشت ہونے لگتی۔ پھیرا لمبا ہوجاتا تو دعا کرتی کہ جلد یہ ایام تمام ہوں۔ وہ اس دن کا انتظار کرتی کہ کب اس جھنجھٹ سے مکمل نجات ملے گی؟

عمر کے چالیس سے پچاس سال کے پیٹے میں۔۔ ابھی تو بہت سفر طے کرنا ہے۔۔ وہ اکثر سوچتی۔

ماہ و سال پنکھ لگا کر اڑتے رہے۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بدلنے لگی۔ سماج بدلنے لگا تو سماجی رویے بھی تبدیل ہونے لگے۔

ماہواری کو پیریڈز یا مینسز کہا جانے لگا۔ سینیٹری پیڈز نے ململ کے کپڑے کی جگہ لے لی۔ اشتہارات کے زریعے ان خاص دنوں کے حوالے سے جانکاریاں دی جانے لگیں۔ پاکی ناپاکی کی فرسودہ کہانیوں کا دور ختم ہوا۔ مخصوص دنوں میں روز نہانے اور صاف ستھرا رہنے پر زور دیا جانے لگا۔

بلوغت کے باوجود پیریڈز نہ آنے پر، حیض کے دورانیہ کی کمی بیشی پر یا مخصوص ایام کے دوران پیٹ میں درد کی شکایات پر فوری ڈاکٹر سے مشورہ کرنے پر زور دیا جانے لگا۔

پیریڈز دو تین عشروں میں ہی شجر ممنوعہ سے نکل کر ایک نارمل موضوع کی حیثیت حاصل کرتے چلے گئے۔ عورت کی زندگی کے ایک اہم سنگ میل کو چھوت چھات اور گندگی کے لبادے میں لپیٹ لپاٹ کے چھپانے کی بجائے اسے ذات کی تکمیل اور تخلیق کی قوت سمجھا جانے لگا۔ لڑکیوں اور عورتیں کے ماہواری یا تولیدی نظام میں درپیش قدرتی مسائل کو سائنسی بنیادوں پر حل کرنے کی ترغیب دی جانے لگی۔ یہ سب کیون کر ممکن ہوا کہ سماج نے اپنے ہی خود ساختہ ٹیبوز پر کھل کر بات کرنا شروع کر دیا۔

وہ یہ ساری سائنسی تحقیقات کے بارے میں پڑھتی اور سر دھنتی کہ کاش اُس وقت ان تمام معلومات کی رسائی ممکن ہوتی تو شاید آج وہ ایک اچھی فٹ بالر، بہترین جمناسٹ یا تیز رفتار سائیکلسٹ ہوتی۔

اپنی زندگی پر تھوپے گئے فرسودہ تواہم کے برعکس اس نے اپنی اکلوتی بیٹی کو ماہواری، پیریڈز، ہائی جین اور خود کو محفوظ رکھنے کے تمام اسرار و رموز سے کم عمری میں ہی آگاہ کر دیا کہ جب بچی بلوغت کے اس دور میں پہنچے تو بجائے اسے فخر سے اپنانے کے، خوف، شرمندگی اور گھن کا شکار نہ ہو۔

زندگی رکتی کب ہے؟ مہینے، سال، دہائیاں انسان کے اندر سے بڑی سرعت سے نکلتے ہوئے اپنے نقوش جسمانی تبدیلیوں کی صورت میں پیچھے چھوڑتے چلے جاتے ہیں۔

گزرے ہوئے برسوں کا اثر اس پر بھی پڑ رہا تھا۔ اس کا اکثر اب دل گھبرانے لگتا، موسم کی گرمائش اس کو بوکھلا دیتی۔ موڈ پل میں تولہ پل میں ماشہ ہونے لگے۔ معمولی چپقلش بھی رائی کا پہاڑ لگتی۔ بے خبری کی نیند ہوا ہوئی۔

اب ماہانہ وقفہ بڑھنے اور مخصوص ایام کا دورانیہ مختصر ہونے لگا تھا۔

جو دورانیہ جوانی میں اس پر بھاری گزرتا تھا اب اسکی کمی اسے ہولا رہی تھی۔ حیض بند ہونے پر گوڈے جواب دینے، جوڑوں کا درد، نظر کی کمزوری اور بدن ڈھیلا پڑنے۔۔ جیسے خدشات اسے گھیرنے لگے۔ ایک عجب کشمکش جاری تھی دماغی بھی جسمانی بھی۔ بظاہر ابھی صحت پر کوئی منفی اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے لیکن وہ اپنے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کو محسوس کر رہی تھی۔

رات سوتے سوتے اچانک گرمی محسوس ہونے لگتی تو پنکھا یا اے سی تیز کرنے پر شوہر کا رویہ شکایت آمیز ہو جاتا۔

کھانے پکاتے ہوئے چہرے پر پسینہ پانی کی طرح بہنے لگتا تو وہ باورچی خانہ سے دوڑ لگا دیتی۔ سسرال اور شوہر پڑھے لکھے ہونے کے باوجود اسکے ہارمونز کے اتار چڑھاؤ کو معنی خیز مسکراہٹ یا طنزیہ جملوں سے مزاح کا رنگ دینے کی کوشش کرتے۔

لیکن وہ اب چار دہائی قبل والی لڑکی نہیں رہی تھی بلکہ ڈیجیٹل دور کی عورت تھی جس کے ایک فنگر ٹپ پر کئی مسائل کا حل موجود تھا۔

وہ گوگل پر پری مینوپاز اور مینوپاز پر لکھے تحقیقی مکالے پڑھتی تو اسکے سامنے دنیا کھلتی چلی گئی۔

اس نے نئے سرے سے اپنی زندگی کے دوسرے اہم سنگ میل کو سمجھداری اور بردباری سے اپنانے کا ارادہ کیا۔ اس نے یوگا، مراقبہ، جوگنگ اور ہلکی پھلکی ایکسرسائز شروع کی۔ مصالحہ دار مرغن کھانوں کی بجائے سرسوں کے تیل میں پکی ہری سبزیاں، مرغی، مچھلی، دالیں، دہی اور بینز کو روزمرہ کی خوراک بنالیا۔ آخروٹ کی گری، سونف، السی اور تل کا سفوف ہر کھانے کے بعد پھانکنے لگی۔ زیرہ، میتھی دانہ، اجوائن اور سونف پانی میں پکا کر، اسے نتھار کر نہار منہ پینے لگی۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مثبت طرز زندگی کے سبب ایک نئی جہت اختیار کر لی۔ پیریڈز کے تسلسل میں کمی آنے کے باوجود اس کی صحت بہتر ہونے لگی۔

مینوپاز صرف جسم ہی نہیں ذہن کو بھی شدید اضطراب کا شکار کرتا ہے۔ جسے خواتین توجہ طلب مسئلہ نہیں سمجھتیں نہ اسکے سدباب کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کر پاتی ہیں۔ غالباً اس کے پیچھے یہ خوف چھپا ہوتا ہے کہ لوگ انہیں عمر رسیدہ یا نفسیاتی مریض کا خطاب نہ دے دیں۔

پیریڈز، پری مینوپاز یا مینوپاز عورت کی زندگی کے دو اہم ادوار ہیں جنہیں ہر عورت کو فخر اور مثبت انداز فکر سے اپنانا چاہیے۔ ماہواری اور مینوپاز سے قبل ہی اس سے جڑے تمام مسائل پر بلا جھجھک بات کرنے سے ہی خواتین انہیں باخوبی حل کر سکتی ہیں۔

مینوپاز پر مرد اور خواتین کی اکثریت اس تاثر کا شکار ہے کہ "عورت اس کے بعد چونکہ بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی تو وہ بے کار ہو جاتی ہے"۔ سب سے پہلے خواتین کا اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ زندگی میں سب کچھ پرفیکٹ نہیں ہو سکتا۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ مینوپاز ایک عورت کی زندگی میں مثبت اور منفی دونوں اثرات کا حامل ہو سکتا ہے لیکن آپ کون سا اثر لینا چاہیں گی یہ طے کرنا خود آپ کی بحیثیت ایک عورت ذمہ داری ہے۔

بہ شُکریہ: DW

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar