Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sania Sati
  4. Jitna Milta Hai, Us Se Utna He Milna Chahiye

Jitna Milta Hai, Us Se Utna He Milna Chahiye

جتنا ملتا ہے، اس سے اتنا ہی ملنا چاہیئے

قوی خان صاحب کا ایک انٹرویو دیکھ رہی تھی، جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ جو آپ سے جتنا ملتا ہے، اس سے اتنا ہی ملنا چاہیئے۔ کوئی آپ کے سامنے ہاتھ بڑھائے تو اس کے گلے ملنے کے لیے بانہیں مت پھیلائیں۔ جو ہاتھ ملاتا ہے، اس سے صرف ہاتھ ہی ملایا جائے۔ ہر عمل کا ردِعمل برابر ہونا چاہیئے۔ کوئی آپ کو گلے نہ لگانا چاہے تو آپ بھی اس کے گلے لگ کر اپنی اہمیت کم مَت کریں۔

مجھے نہیں پتا کہ آپ قوی خان صاحب کی اس بات کو کس طرح لیں گے، مگر اس بات نے میری زندگی پر بہت مثبت اثر ڈالا ہے۔ جس دن سے ان کا انٹرویو سُنا تھا، تب سے یہ بات پلے سے باندھ لی تھی۔ ابھی تک اس بات پر عمل کرتی ہوں۔

یہ چیز ذہنی سُکون کے لیے بہترین ہے۔ اس سے آپ کا کانفیڈنس برقرار رہتا ہے۔ آپ احساسِ کمتری سے نکل آتے ہیں۔ سامنے والے کی بے رُخی کا پچھتاوا نہیں رہتا۔ آپ ڈپریشن، سٹریس، anxiety وغیرہ سے بچ سکتے ہیں۔ آپ اپنی پرسکون زندگی کونہ صرف محسوس کر سکتے بلکہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اصل زندگی کا مزہ بھی یہی ہے کہ سامنے والا جس طرح کا ہو آپ بھی ویسے ہی بن جاو اسی میں ہی عافیت ہے۔

آپ اپنے لیے ایک حد مقرر کر لیتے ہیں۔ ایک دائرہ اپنی شخصیت کے گرد کھینچ لیتے ہیں۔ پھر آپ سامنے والے کو اس دائرے میں اتنی ہی جگہ دیتے ہیں، جتنی وہ آپ کو دیتا ہے۔ اس سے آپ خود بھی خوش رہتے ہو اور سامنے والے کی تزلیل سے بھی بچ جاتے ہو جو آپ اندر ہی اندر صرف خود ہی محسوس کرتے رہتے ہو۔

میرے جھکنے کے آپ کیوں ہیں منتظر
آپ مبتلا ایک لاحاصل ارمان میں ہیں

میں تو خود کو ٹھوکر مار کہ گزر جاوں
آپ میری جان کس گمان میں ہیں

جہاں فاصلہ رکھنا بہتر ہو، وہاں فاصلہ رکھنا ہی عقلمندی ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنے ہاتھوں سے خود کو بے مول کرلیا جائے۔

میں اکثر اپنے بزرگوں سے بھی سنا کرتی تھی کہ انسان کی عزت خود اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن تب تو شاید سہی سے سمجھ نہیں آتی تھی ان کی باتیں تو زیادہ تر سر کے اوپر سے گزر جاتی تھیں لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے اور زندگی کے تھپڑ پڑ رہے ہیں تو عقل اپنے ٹھکانے پے آتی دیکھائی دے رہی ہیں۔

اب تو اکثر اپنی ہی کی گئی بیوقوفیوں پہ ہنسی آتی ہے کہ کیسے کیسے لوگوں کے لیے اپنا وقت اور جزبات تباہ کر دیئے۔ تمام لوگ جو بھی ہماری زندگی میں آتے ہیں وہ ہمیں بہت کچھ سیکھاجاتے ہیں اس دنیا میں دو قسم کے لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں۔

ایک وہ ہوتے ہیں جوہمیں بھروسہ کرنا سیکھاتے ہیں اور دوسرے وہ ہوتے ہیں کہ ان کے بعد بندہ پھر کسی پہ یقین کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دونوں قسم کے لوگ ہمارے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ ہماری زندگیوں میں آتے ہیں تو ہمیں بھی تجربہ کرنے کا کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

ہم لڑکیاں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں ہم خوابوں میں جینے کی کوشش کرتی ہیں اور اور زیادہ تر تو رہتی ہی خوابوں خیالوں میں ہیں جب خوابوں کی کشتی میں سوار ہوتی ہیں تو اس نازک کشتی کو ایک خوبصورت جھیل میں تیرتے ہوئے سمجھ رہی ہوتی ہیں لیکن جب خوابوں سے بیدار ہوتی ہیں تو کشتی تو نازک ہی ہوتی لیکن جہاں وہ تیر رہی ہوتی ہے وہ کوئی خوبصورت جھیل نہیں ہوتی بلکہ ایک خطرناک، ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے اور پھر وہی ہوتا ہے جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ نازک کشتیاں بگڑے سمندروں کے سامنے کیا حثیت رکھتی ہیں اور ان کا کیا انجام ہوتا ہے اس بھیانک منظر کو میں لفظوں میں بیان کرنے سے شاید قاصر ہوں ھ خطرناک سمندروں سے لاشیں ملنا بھی مشکل ہوتا ہے اور جو بدنصیب لاشیں اس دنیا کے سامنے آجاتی ہیں بدبختی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔

میں اس وقت بات کررہی تھی کہ ہر انسان کو وہیں پہ رکھو جہاں وہ رہنے کے قابل ہو۔ لوگوں کو ان کی حد میں رکھنا یا انھیں وہی پہ رکھنا جہاں وہ رہنے کے قابل ہوں متکبرانہ، اناپرستی یا پھر اکڑپن نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک خفاظتی دیوار ہوتی ہے جو ہمیں ہر وقت اپنے اردگرد مضبوطی سے قائم و دائم رکھنی چاہیے۔

میں سمجھتی ہوں کہ لڑکیوں میں نہ صرف غرور بلکہ عاجزی بھی ہونی چاہیئے اور ہر لڑکی کو ان دونوں غرور اور عاجزی کا استعمال کرنا آنا چاہیئے۔ غرور تو ہر راہ چلتے ایرے غیرے کے لیے ہونا چاہیے جو اس کی طرف آنکھ اٹھا کے نہ دیکھ پائے اور عاجزی تو ہر خوبصورت، پیارے، خونی رشتے کے لیے ہونی چاہیے جہاں سے اسے عزت ملے، مان لے، مرتبہ ملے، چاہے پھر وہ گھر باپ کا ہویا پھر شوہر کا۔

ایسی لڑکی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا وہ کسی میدان میں ہو چاہے وہ پروفیشنل ہوں یا پھر گھریلو میدان ہو۔ میں نے گھریلو میدان اس لیے استعمال کیا کیوں کہ اجکل ہمارے گھر بھی کسی میدان سے کم نہیں ہیں۔ لیکن ایسی لڑکیاں بہت ہی کم ہوتی ہیں۔ جن میں عاجزی اور غرور نہ صرف پایا جائے بلکہ ان کا بہترین استعمال بھی کر پایئں۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz