Tuesday, 01 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sania Sati
  4. Insaf Pasandi

Insaf Pasandi

انصاف پسندی

عدل و انصاف کو ہمارے دین میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ عدل کا معنی یہ ہے کہ حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔ ہمارے پیارے دین اسلام میں عدل کا تقاضا اس قدر شدت سے کیا گیا ہے کہ اپنے ذاتی یا قومی یا دینی دشمنوں کے بارے میں ناانصافی کا کوئی بھی رویہ اللہ کو پسند نہیں۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالی ہے کہ "اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاو اور سچائی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاو۔ کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پہ آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو یہ (عدل) تقوی کہ زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے"۔

اس آیت کا سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں خاص طور پر اس دشمنی کا تذکرہ ہے جو دین کی بنیاد پر ہو۔ ظاہر ہے دین کی بنیاد پر دشمنی، دشمنی کی سخت ترین شکل ہے۔ اس میں بھی مسلمانوں کو نا انصافی اور انتہا پسندی سے روکا گیا ہے۔ اگر ہم اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوگی کہ قرآن پاک کی واضح رہنمائی کے باوجود ہمارے ہاں انصاف پسندی کا شدید فقدان ہے۔

عدالتی انصاف کی بات تو جانے دیجئے، اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہم بارہا عدل و انصاف کا خون کرتے ہیں۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہم میں سے کتنے ہی دین دار افراد ہی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر کہ دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں۔ اسی طرح دوکاندار چیز کے پیسے تو پورے وصول کرتے ہیں لیکن چیز کے معیار یا مقدار میں کمی کر دیتے ہیں اپنے کاروباری معاملات میں کیش فلو کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے معاہدے کے خلاف رقوم کی ادائیگی میں تاخیر عام سی بات ہے۔ جس میں چھوٹے چھوٹے دوکانداروں سے لے کر بڑی بڑی کمپنیاں بھی ملوث ہیں۔

ہمارے بہت سے لوگ تعداد ازدواج کی اجازت کے استعمال میں تو بے باک ہیں لیکن قرآن مجید کے مطابق ان میں عدل و انصاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب لوگ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کی حق تلفی کرتے ہوے درمیان میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں ہمارا جہاں پر بھی بس چلتا ہے ہم دوسروں کی حق تلفی کرنے سے بلکل بھی گریز نہیں کرتے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس کے پاس اختیارات زیادہ ہیں وہ زیادہ لوگوں کے حقوق تلف کرتا ہے اور جس کہ پاس کم ہیں وہ تھوڑے کم۔

بد قسمتی سے ہم انصاف پسند تو ہیں لیکن صرف اپنے معاملات میں۔ ہمیں خود کے ساتھ ہوئی ناانصافی تو نظر آتی ہے لیکن جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں وہ نظر نہیں آتی۔ ہمیں صرف اورصرف دوسروں کی غلطیاں ہی نظر آتی ہیں اپنی غلطی کسی کو نظر نہیں آتی۔ کسی اختلاف بلخصوص دینی مسلے میں اختلاف کی صورت میں دوسروں کی بات سننا ہمیں گورا نہیں ہوتا۔ شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتفاقا جس عقیدے یا مسلک میں پیدا ہوئے ہیں وہی حق ہے۔ اگر ایسا ہی ہیں تو پھر ان لوگوں کا کیا کیا قصور ہیں جو کسی دوسرے مذہب یا مسلک والوں کے گھر میں پیدا ہوے اور اپنے ہی نقطہ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ اگر ہم انہیں غلط سمجھتے ہیں تو ہمیں بھی اپنے آبائی مسلک و عقیدے پر بھی ایک حق کے سچے متلاشی کی حثیت سے نظرِ ثانی کر لینا چاہیے۔

ہمارا رویہ بالعموم یہ ہوتا ہیں کہ اگر مخالف مسلک کا کوئی شخض تحقیق پر آمادہ ہو اور اس کے لیے ہمارے مسلک کو سمجھنا چاہے تو ہم اسے سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں لیکن اگر ہمارے مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی طالبِعلم دوسرے مسلک کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا شروع کر دے تو ہم ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مخالف مسلک کی کوئی کتاب پڑھنا یا ان کے کسی عالم کی بات سننا ہی ہمارے نزدیک گمراہی ہے۔ ابتدا ہی سے ہمارے ذہنوں میں اس بات کو شامل کیا جاتا ہے کہ فلاں مشرک ہے، فلاں بدعتی ہے۔ یا فلاں گستاحِ رسول ﷺ ہے اس کی کوئی بات سننا یا اس کی کوئی کتاب پڑھنا گناہ ہے۔ کیونکہ اس سے گمراہ ہونے کا خطرہ ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک تو کسی دوسرے مسلک یا مذہب کے لوگوں کو سلام کرنا یا پھر مصافحہ کرنے سے بھی نکاح فاسد ہو جاتا ہے۔

ہمارا دین عدل وانصاف کا علمبردار ہے اور اسی کا حکم دیتا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی بھی عدالت ملزم کی بات سنے بغیر اسے مجرم قرار دے کر سزا سناتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے عام مسلمان عدل وانصاف کہ علمبردار کہلانے کے ساتھ ساتھ دوسرے مسلک کے لوگوں کی بات سنے بغیر ان کے متعلق کفر، شرک، بدعت اور گستاخی رسول کا فتوی جاری کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے یہاں تک کہ مخالف مسلک کے افراد کو قتل کرنا بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا بلکہ عین کارِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے کسی مسلک کی تخصیص نہیں بلکہ سب ہی مسلک کے لوگوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔

اس بات کو سب ہی بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ عدل و انصاف کا قتلِ عام کر رہے ہیں اگر ہم قرآنِ پاک پر سچا اور پکا ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں حق اور انصاف کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنانا ہوگا۔ انصاف پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے۔ جس بات کو ہم حق اور انصاف سمجھتے ہیں اپنی استطاعت کہ مطابق اس پر ڈٹ جانا اور اس کے مقابلے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ کرنا وہ رویہ ہے جس کا تقاضا ہم سے دین میں کیا گیا ہے۔

اگر ہم اپنی روزمرہ دینی اور دنیاوی زندگیوں میں ناانصافی کو چھوڑنا شروع کر دیں تو بہت جلد ہماری اجتماعی زندگیوں میں بھی عدل وانصاف کا بول بالا ہوگا اور ہمارے حکمران اور عدالتیں بھی عدل قائم کرنے والے بن جائیں گے لیکن اپنے رویے کی اصلاح کی بجائے ہم حکومت ہی کو کوستے رہے تو حالات ایسے ہی رہیں گے بلکہ اس سے بھی بد تر ہو جایئں گے۔ اس لیے ہمیں بحثیت ایک قوم کے اپنی اصطلاح کی ضرورت ہیں۔ لیکن بجائے خود پہ غور کرنے کہ ہم اپنی حکومت اور عدالتوں پہ تنقید کرتےہیں ہم یہ نہیں سوچتے کہ عدلیہ اور پارلیمنٹ میں موجود لوگ بھی ہم میں سے ہی ہیں ہم ہی نے انھیں منتخب کر کہ ایوانوں میں بھیجا ہے تو جیسے ہم ہیں ویسے ہی وہ بھی ہوں گے۔ اس لیےمیں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر ہم لوگ خود کی اصطلاح کے لیے تھوڑی محنت کریں تو ہم ایک بہترین، مذہب اور انصاف پسند قوم بن کہ دنیا میں ایک عظیم قوم کے طور پر نام پیدا کر سکتے ہیں۔

Check Also

Apni Izzat Apne Hath

By Rauf Klasra