Sunday, 16 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sania Sati
  4. Bhains Ke Aage Been Bajana

Bhains Ke Aage Been Bajana

بھینس کے آگے بین بھجانا

"جس حکمران کا دروازہ دستک دینے پر نہ کھلے اسے چوگاٹھوں سمیت اکھاڑ کر پھینک دینا چاہیے"۔ حسن نثار

حسن صاحب کے اس قول کو ہمارے ہمسایہ ممالک نے تو پورا کر دیا ہے۔ لیکن ہماری عوام کے جاگنے کا وقت شاید ابھی نہیں آیا اس قوم کومزید نیند کی ضرورت ہے۔ لیکن بنگلہ دیش اور سری لنکا کی عوام نے آخر کار دروازہ اکھاڑ ہی دیا ہے اور وہ بھی چوگاٹھوں سمیت۔

مجھے لگتا ہے کہ حسن صاحب کی کتاب "کالے قول" پاکستان کی بجائے ہمارے برادر ممالک سری لنکا اور بنگلہ دیش میں زیادہ قابلِ غور اور قابلِ عمل رہی ہے۔ جس کی بدولت آج ان دونوں ممالک کی عوام نے اپنی کئی دہایئوں سے برسرِاقتدار رہنے والی حکومتوں کا نہ صرف تحتہ الٹ دیا ہے بلکہ انھیں نشانِ عبرت بنا دیا ہے۔

لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ کیا ہی اچھی بات ہوتی کہ حسن صاحب کی اس کتاب کا کچھ زیادہ نہ سہی بلکہ تھوڑا سا ہی اثر لے لیتی ہماری یہ سوئی ہوئی، نابینا اور گونگی، بہری قوم۔

لیکن افسوس کے اس قوم کو حسن نثار جیسے لیڈر(ویسے تو وہ ایک صحافی، کالم نگار، تجزیہ کار ہے لیکن میں انھیں ایک نہ صرف عظیم لیڈر بلکہ اپنا مرشد ہی مانتی ہوں) کی شاید ضرورت نہیں یا پھر یہ لوگ یا یہ قوم ان کی باتوں کو سمجھنا نیہں چاہتی اور جان بوجھ کر بیوقوفوں کی لائن میں کھڑی ہے یا انھیں اس لائن میں زبردستی کھڑا کیا جا رہا ہے۔

ہم اتنے معصوم اور سیدھے سادھے ہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کی پریس کانفرنسز پہ نہ صرف اندھا اعتماد کرتے ہیں بلکہ ان کی عظمت پر قصیدے پڑھتے ہوے بھی نہ صرف فخر کرتے ہیں بلکہ ان کی نیک نیتی اور شرافت و معصومیت کا راگ بھی الاپتے پھرتے ہیں۔

آج حسن نثار صاحب کونہ صرف جاننے والے بلکہ ان کے چاہنے والے، ان کی باتوں کو نہ صرف سننے والے بلکہ انھیں ماننے والے لوگ اس دنیا میں تقریباََ 20 لاکھ سے بھی زائد ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ ان تمام لوگوں میں سے کوئی چند ایک نے بھی آج تک ان کے اقوال کو اپنے اعمال میں شامل کرنے کی کوشش کی ہو۔

حسن نثار صاحب کی کتاب "کالے قول" میں ہی ان کا ایک قول ہے کہ "سوائے عوام کے۔۔ ہر شے کا میٹر بہت تیزی سے گھوم رہا ہے" حسن نثار صاحب کے اس قول کا بھی ہمسایہ ممالک نے ہی فائدہ اٹھایا ہے۔ حسن صاحب میں شرمندہ ہوں کیوں کہ ہمارے میٹر تو ہیں لیکن سارے کے سارے پرانے میٹر جن کا چلنا ہی دشوار ہے تو اپنی مرضی سے گھومنا یا پھر تیزی سے گھومنا شاید ان کے مقدر میں نہیں یا پھر یہ گھومنا ہی نہیں چاہتے۔ ان بوسیدہ اور خراب میٹروں پر آپ جیسے عظیم مکینک بھی اپنی محنت اور وقت ضائع کررہے ہیں۔

حسن صاحب کے اقوال بھینس کے آگے بین بھجانے کے مترادف ہیں جس طرح بھینس کے آگے بین بھجاتے رہیں لیکن اسے کوئی سمجھ نہیں آتی اور اپنی موج میں مست رہتی ہے بلکل اسی طرح ہماری قوم بھی مست ہے۔

Check Also

Khulasa e Quran, Satwi Nimaz e Taraweeh

By Rizwan Ahmad Qazi