Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Waheed
  4. Tarjeehat

Tarjeehat

ترجیحات

آج لوکل سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ سفر کے دوران سر شدید درد سے اس قدر پھٹ رہا تھا کہ بَس نہیں چل رہا تھا گاڑی سے نکل کر دور کسی ایسی پُر سکون جگہ بھاگ جاؤں جہاں یہ شور شرابہ سنائی نہ دے۔ دن بھر کے کام کی تھکاوٹ بیس فیصد تھی دس فیصد تھکاوٹ سفر اور لوکل آمدورفت جبکہ باقی کی ستر فیصد تھکاوٹ شور کی تھی۔

شور گاڑیوں کا نہیں بلکہ گاڑی میں روتے ہوئے ایک سات سالہ بچے کا تھا۔ تقریباََ سفر کی شروعات میں ہی وہ بچہ گاڑی میں اپنی والدہ کے ہمراہ سوار ہوا تھا۔ والدہ کے علاوہ بچے کی خالہ اور غالباً نانی جان بھی ساتھ تھیں۔ گاڑی میں سوار ہوتے ہی بچے نے رونا شروع کر دیا تھا۔ جس پر والدہ صاحبہ نے سمارٹ فون بچے کے ہاتھ میں تھما دیا اور اپنی مادری زبان میں بولا کہ "ہاں ہون اس دے نال کھیڈ تے چپ کر جا"۔

بچہ کچھ دیر موبائل میں گیم کھیلنے کے بعد دوبارہ رونے لگا اور رونے کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی دینے لگا۔ جو کہ پہلے تو پانچ منٹ سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا بول رہا ہے؟ کیوں بول رہا ہے؟ اور نہ ہی رونے کی وجہ سمجھ آئی۔ آخر کار ساتھ بیٹھی خاتون سے تصدیق ہوئی کہ بچہ کسی گالی کی تسبیح کر رہا ہے۔ پہلے تو سوچا کانوں میں ہیڈ فون لگا کر نظر انداز کیا جائے مگر ایسا ممکن نہ تھا۔ کیونکہ ہیڈ فون ہی دستیاب نہ تھے۔ آخر کارپوچھ ہی لیاکہ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ اس کے اس رویہ کی کیا وجہ ہے؟

نانی جان کے بقول جوتے دلانے کی ضد کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے یہ بچہ اتنا واویلا کر رہا ہے۔ رونے تک تو بات ٹھیک تھی مگر ساتھ چیخنا چلانا اور گالیوں کی بھرمار سمجھ نہ آئی۔ اب معاملہ اور زیادہ سنگین ہوگیا۔ بچے نے مار پیٹ بھی شروع کر دی۔ جس کی مزاحمت کرتے ہوئے ماں نے بچے کو پیٹا اور ساتھ ہی دو چار گالیاں اس نے بھی بچے کو دیں۔ جبکہ اس فعل میں ساتھ بیٹھی خالہ اور نانی نے بھی شرکت کی۔ پھر سمجھ میں آئی یہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچہ اپنی انا کی تسکین کے لیے مسلسل گالی کا سہارا کیوں لے رہا ہے؟ اور مجھے سو فیصد یقین تھا کہ اس بچے کو ہرگز اس گالی کا مطلب نہیں پتہ مگر اس نے تمام اچھے الفاظ کو چھوڑ کر اس گالی والے لفظ کو کیوں چنا؟ کیونکہ اس بچے نے اپنے گھر کے بڑوں کو غصے کی حالت میں اپنے غصے کے اظہار کے لیے اسی گالی کا سہارا لیتے دیکھا تھا۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ہماری ترجیحات میں ہی نہیں ہے۔ جبکہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا "آدمی کو گنہگار کرنے کے لیے یہ عمل کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جنھیں وہ کھلاتا ہے (یعنی اہل خانہ)"۔

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ہم اپنے اہل خانہ کی اچھی تربیت نہیں کریں گے تو بھی گنہگار کہلائیں گے۔ مگر ہم دنیا کی تمام تر فضولیات کو تربیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ اگر معاشرے کا ایک بھی فرد بگڑ گیا یعنی اچھی تربیت سے محروم رہ گیا تو وہ معاشرے کے لیے ناسور بن کر رہ جائے گا۔ جس طرح ایک لڑکی کی شادی کے مہینوں پہلے تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پارلر اور شادی ہال کی بکنگ ہفتوں پہلے کر دی جاتی ہے۔ جبکہ جہیز تو بچی کے پیدا ہوتے ہی بننا شروع ہو جاتا ہے۔

اتنی دلجوئی سے ان تمام سرگرمیوں میں حصہ لیا جاتا ہے اس کا آدھا بھی اگر تربیت میں حصہ لیا جاتا تو ان تمام تر سرگرمیوں کو کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ جس طرح مختلف قسم کے تعلیماتی اور تربیتی ادارے بنائے جاتے ہیں جہاں مرد اور عورت کو تعلیم دی جاتی ہے۔ انہی اداروں کی طرح اگر ایک عدد ادارہ ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت کے لیے بنا لیا جائے جہاں ان کو شادی کے بعد تمام معاملات سے نپٹنے کی قرآن و سنت کی روشنی میں تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کی جائے۔ تا کہ وہ اپنی اولاد کو بھی معاشرے کا ایک کارآمد فرد بنائیں۔ حالانکہ اس تعلیمی ادارے کا کردار ہماری مائیں بھی ادا کر سکتی ہیں۔

آج کی مائیں انجینئر اور ڈاکٹر تو پیدا کر رہی ہیں مگر وہ معاشرے کے لیے کارآمد نہیں۔ کیونکہ تعلیم کا اہتمام تو بہت ہے مگر تربیت کا نہیں۔ کردار سازی ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے۔ کسی بھی دور میں کسی بھی قوم کی بلندی اور زوال کا سبب ایک فرد ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے حصے کی کوئی شمع جلانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے اپنے ساتھ ساتھ اپنی نسل کو بھی سدھارنا ہوگا۔

دورحاضر میں ہمسفر کو چننے کے لیے ظاہری چیزیں مثلاً شکل وصورت اور جائیداد وغیرہ کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ میرے خیال میں ہمسفر کا انتخاب اپنی آئندہ آنے والی نسل کو مد نظر رکھ کر کرنا چاہئے۔ آیا ہم جس انسان کو اپنا ساتھی چُن رہے ہیں وہ آئندہ آنے والی زندگی میں اچھی تربیت کے اصولوں کو اپنا کر معاشرے کو بہتر بنانے میں کتنا معاون ثابت ہو سکتی ہے یا ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کی مشکلات آسان کرے اور ہمیں قران و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan