Molana Fazal Ur Rehman Aur 26Wi Aeeni Tarmeem
مولانا فضل الرحمٰن اور 26ویں آئینی ترمیم
حالیہ دنوں پارلمینٹ، سینیٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی نے 26ویں آئینی ترمیم پاس کرلی۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن اور انکے پارٹنر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اتحادی جماعتوں نے ترمیم کے حق میں ووٹ استعمال کیا۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمعیت علماء اسلام نے بھی ترمیم کو سپورٹ کیا۔ یعنی اگر جمعیت علماء اسلام کے اراکین ووٹ نہ ڈالتے تو ترمیم پاس نہیں ہوسکتی تھی۔
ترمیم پاس کرنے میں جمعیت علماء اسلام کی کلیدی کردار رہا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ وہ مخالفین جو جمعیت علماء اسلام کے ہر فیصلے پر اعتراض و تنقید کرتے تھے وہ یہاں کیوں خاموش ہوگئے؟ ایک جملہ جو اکثر ہم اس وقت سنتے ہیں جب کسی کی فوتگی ہوتی ہے کہ ہم ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں یعنی آئینی ترمیم میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب حکومت کے ساتھ برابر شریک ہوئے ہیں تو پھر کیوں انہیں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا رہا؟ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی سیاسی کیریئر کا مزاق اڑانے والے اصحاب کہاں گئے؟
شاید مجھے ان سوالوں کا جواب کچھ یوں ملے گا کہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو اپنے طرف کھینچ لیا، انہوں نے دونوں طرف کو اپنے ساتھ ملا لیا یا وہ مستقبل میں پی ٹی آئی یا دیگر مخالفین کے کام آسکتے ہیں اس لیے خاموش ہوگئے۔ عمران خان کا ایک جملہ یاد ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک مقناطیس ہے وہ حقیقت ثابت ہوئی مقناطیس چیزوں کو اپنے طرف کھینچتا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے آئینی ترمیم سے مدارس کے لئے بہت مفید مقاصد حاصل کئے اور ساتھ ہی علماء کرام کا سب سے بڑا مطالبہ ربا کے خاتمے کا حل کیا کے ساتھ ساتھ سیاسی کیریئر بھی مضبوط کیا۔ وہ مخالفین جو ہر وقت ہر اقدام پر تنقید کرتے تھے انہیں بھی خاموش اور اپنے طرف مائل کرلیا۔