Pur Tashadud Hajoom Ki Nafsiyat
پر تشدد ہجوم کی نفسیات

جب ایک فرد کسی گروہ کا حصہ بنتا ہے تو وہ اپنی انفرادیت کو بہت سے پہلووں میں کھو دیتا ہے۔ جیسے کے ذاتی شناخت کہ اس کی ذاتی عادات و اطوار کیا ہیں اور وہ کس طرح کی اخلاقیات کو مانتا ہے اور اس پہ عمل پیرا ہے۔ دوسرا اس کے جذبات، انسان کے احساست اور جذبات جب وہ ہجوم کا حصہ بنتا ہے تو ہجوم کے ساتھ بہہ نکلتے ہیں یعنی گروہ جس طرح کے احساسات کا شکار ہو وہی فرد کے احساسات ہوتے ہیں جیسے کسی تہوار پہ قبائلی رقص، ڈرم سرکل یا ہجوم کا کسی کو مجرم مان کے اس پہ تشدد یہ ایک طرح کی لہر ہوتی ہے جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے چاہے وہ خوشی ہو، غصہ ہو یا نفرت ہو۔
تیسرا ہجوم کا حصہ شخص کوئی انفرادی شناخت نہیں رکھتا۔ تشدد کے واقعات میں جہاں ہجوم دوسرے گروہ یا کسی انسان کو نشانہ بناتا ہے ایسا وہ بے خوف و خطر ہو کے کرتا ہے کیونکہ وہ بحثیت فرد ایسا نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اس کی شناخت ہجوم کے طور پہ ہوتی ہے۔
اسی وجہ فرد میں ذمہ داری اور اپنے عمل کے جوابدہ ہونے کا احساس ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ وہ اپنے اعمال میں لا پرواہ اور رو میں بہنے کی وجہ سے غیر ذمہ دار ہوتا ہے۔
ایک پرتشدد ہجوم جب بھی کسی کو نشانہ بناتا ہے اس میں ذمہ داری، اخلاقیات، انسانی ہمدردی اور رحمدلی کا فقدان ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی نفسیات پہ اس وقت صرف جنون سوار ہوتا ہے۔
وطن عزیز میں آئے دن ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے تحریک کے بانی کا عرس تھا تو تمام رستوں کو بند کیا گیا یہ لاہور کا مین ایگزیٹ ہے، بند روڈ، جہاں تمام بس سٹاپ ہیں لیکن بغیر اطلاع کے راستے بند کیے گئے۔ اس پہ آپ سوال نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہاں موجود ہجوم یہ سمجھتا ہے کہ یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ برسی منانے کے لیے نعرے لگائیں، راستے روکیں اور اپنے علاوہ سب کو دین و ایمان سے محروم سمجھیں۔ اس نفسیات کو چیلنج کرنے والا صرف موت کو دعوت دے سکتا ہے۔
دھرنے کے دوران راستے بند کیے گئے یہاں بھی دو گروہ آمنے سامنے ہیں۔ جو خود کو حق پہ اور دوسرے کو غاصب سمجھتے ہیں۔ موت کی خبروں پہ ہنسی کے ایموجیز یہی ثابت کرتے ہیں کہ پر تشدد ہجوم انسانیت کے درجے سے گر چکا ہے۔ یہاں انسان نہیں مر رہا بلکہ ہجوم کا ایک فرد مر رہا ہے جس کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انتقام کا جذبہ اتنا حاوی ہے کہ کسی کو گزند پہنچانے یہاں تک کہ جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا اور پھر اس عمل کو جسٹیفائی کرنا، دوسرے کی جان جانے پہ مذاق اڑانا یہ انسان نہیں کر رہے بلکہ غصے، انتقام اور نفرت سے بھرا ہجوم کر رہا ہے۔ وہ جو اس اکھاڑے کے باہر ہیں اور حیران نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ ان کا کیا قصور ہے کہ وہ ایک شہر سے دوسرے میں نہیں جا سکتے، بیمار ہیں تو ہسپتال نہیں پہنچ سکتے، کام سے گھر جا رہے ہیں تو خواری نصیب ہے۔
وہ بےبس ہیں اور وقت کے ساتھ یہ بے بسی نفرت اور غصے میں بدل رہی ہے لیکن یہ نفرت اور غصہ۔ کس کے خلاف ہے اس ہجوم کے خلاف جو جانتا ہی نہیں کہ وہ کس طرف چل نکلا ہے یا خود اپنے لیے کہ وہ یہاں ہیں ہی کیوں کہ جہاں ہجوم تو ہے لیکن انسانیت نہیں ہے۔

