Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sana Batool Durrani
  4. Maa Anmol Nata

Maa Anmol Nata

ماں انمول ناتہ

ماں دنیا کا سب سے سچا، بے لوث، کھرا اور مخلص رشتہ ہے۔ ایک ایسا ناتہ جس میں نہ کچھ دو اور کچھ لو کا اصول ہے نہ محبت اور شفقت کے ردعمل میں عزت و احترام کا تقاضا۔ جہاں صرف دان دینا ہی مقصود ہے۔ ایسا رشتہ جس میں تقاضے ہیں نہ مصلحت کا ہیر پھیر۔ وہ محبت جو رحمت کا گھیراو رکھتی ہے وہ نظر شفقت جو خاموشی میں بھی درد و غم کی پکار سن لیتی ہے۔ جس کی آغوش میں وہ سکون ہے کہ جس کے سامنے دنیا کی ہر آسائش ہیج ہے اور وہ وسعت ہے کہ بڑی سے بڑی گستاخی اور تلخی کے لیے معافی ہی معافی۔ اس کی محبت اور شفقت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ جب خدا اپنی رحمت کی مثال دینا چاہتا ہے تو اسے ستر ماوں کی محبت سے تشبیہ دیتا ہے۔ دل پکار اٹھتا ہے کہ وہ رحمت ایسی ہے کہ اس کا حصا ر چہار کیا شش سمت ہے تو خوف کیسا۔

ماں جب ماں ہوتی ہے تو اور کچھ نہیں ہوتی اس کے دل میں ہر بچے کی محبت ہوتی ہے۔ اس کے دل سے نکلنے والی خیر و عافیت کی دعا دنیا کے ہر بچے کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا دل ہر بچے کے دکھ پہ خون کے آنسو بہاتا ہے۔ اس کی مثال اس گڈریے کی سی ہوتی ہے جسے اپنی نا سمجھ اور زچ کر دینے والی ہر بھیڑ سے غیر مشروط پیار ہوتا ہے۔ وہ میری ماں ہو یا دنیا میں بسنے والے کسی بھی فرد کی ماں اس کی محبت انمول ہے بے تحاشا ہے ہر سو ہے۔

انسان کی پہلی محبت ماں ہوتی ہے اور ماں ہونے کا احساس قلب کو وہ وسعت بخشتا ہے کہ جس کی کوئی حد ہے نہ انتہا۔ میری امی میری پہلی محبت ہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی میں ایک سائے کی طرح ان کے ساتھ رہی کچن میں، مارکیٹ میں، محفل میں یا تنہائی میں بس ہر سو وہی نظر آتی ہیں۔ ا ن کی محبت کا جواب میں چاہوں بھی تو نہیں دے سکتی۔

دنیا کی سب مائیں بہادر ہوں گی یا وہ اتنی بہادر ہیں کہ ان کا حوصلہ کبھی ہمت نہیں ہارنے دیتا۔ ان کی حاضر جوابی، حس مزاح، مشکل لمحوں میں تسلی کے بول سب ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو زندگی گزارنے کے ہنر دیتے ہیں۔ بچپن میں انہوں نے ہمیں ہاتھ کے چھالے کی طرح پالا ہے لیکن اس محبت میں اپنی دیگر ذمہ داریوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ خود کو بھی ہمیشہ مین ٹین رکھا۔ وہ بچپن کا لاڈ تھا یا جوانی میں معاشرے کا ہمت، حوصلے اور وقار سے سامنا کرنے کا ہنر سب انہی کی دین ہے۔

وقت کے پرت الٹاتی ہوں تو بہت سے مناظر سامنے آتے ہیں حیران ہو کے سوچتی ہوں کہ کیا کبھی میں بھی اتنی بے لوث اور خالص محبت کر پاوں گی۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ کہیں راستہ مڑتے ہوئے بھڑوں نے حملہ کر دیا انہوں نے مجھے ڈھانپ لیا مجھے گزند بھی نہیں پہنچی اور انہیں نہ جانے کتنی بھڑوں نے کاٹا۔ اگر ایسی صورت حال ہو تو انسان لا شعوری طور پہ اپنا تحفظ کرتا ہے لیکن محبت کا وہ جذبہ اتنا طاقتور تھا کہ انہیں اپنی جان سے زیادہ میری فکر تھی۔

میں آٹھویں کلاس میں تھی، جوتوں کے تسمے کھل جاتے تو سارا دن سکول میں یوں ہی گھومتی رہتی کیونکہ مجھے تسمے باندھنا نہیں آتا تھا امی نے کبھی کہا ہی نہیں کہ خود باندھو۔ میری دوست نے مجھے سکھایا کہ تسمے کو گرہ کیسے لگاتے ہیں۔ مجھے بال بنانا نہیں آتے تھے صبح جہاں سب کے جانے کی تیاری کا وقت ہوتا وہاں میرے بال سنوارنے کی ذمہ داری بھی امی کی ہوتی تھی۔ پھر یہ مہربانی بھی اسی دوست کی رہی کہ اس نے بال بنانا سکھائے۔ پرائمری کلاسز تک وہ خود ہمیں پڑھاتی تھیں۔

میں پری سکول میں تھی وہ پڑھنا سکھا رہی تھیں ظ ا ظا ل م لم ظالم ع و عو رت عورت،۔ میں نے معصومیت سے کہا وہ آپ جیسی ہوتی ہے نا۔ ان کا پڑھانا مجھے ظلم عظیم لگتا تھا خاص طور پہ لکھنے سے میری جان جاتی تھی اس لیے ہوم ٹاسک میں ڈنڈی مارنے کی بھر پور لیکن ناکام کو شش ہر بار کی جاتی تھی۔ آج بھی وہ یہ بات یاد کر کے ہنستی ہیں۔ ان کا پڑھانا روایتی نہیں ہوتا تھا ایک نیا لفظ پڑھانے کے بعد اس کی وضاحت کرتیں اور استعمال پوچھتیں۔ ایسے ہی وہ ہر کانسیپٹ کلیئر کرتی تھیں۔

ان کی محبت کہ مجھ پہ کبھی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی لیکن ہر کام، ہر ضروری ہنر ایسے سکھایا کہ محسوس تک نہیں ہونے دیا۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی کو ئی چھٹیاں بے کاری کے عالم میں گزاری ہوں۔ ہر چھٹیوں میں کوئی ٹاسک ہوتا تھا جسے پورا کرنا ہوتا تھا وہ ایسی دلچسپ مصروفیت ہوتی تھی کہ مجھے بوریت کا دورہ نہیں پڑتا تھا۔

ان کا حوصلہ میرے لیے مثال ہے۔ ایک مرتبہ انہیں کسی بیماری کی تشخیص ہوئی میں نے رو رو کے برا حال کر لیا انہوں نے صرف اتنا کہا تمہیں نہیں پتہ تمہاری ماں کتنی بہادر ہے اور خدا کا شکر وہ اسے اوور کم کر گئیں۔ ا وہ اتنے صاف دل کی مالک ہیں کہ کسی سے کتنا ہی بڑا اختلاف اور جھگڑا کیوں نہ ہو اس کی تکلیف کی خبر ان تک پہنچے تو وہ مدد کرنے اور دلاسہ دینے کے لیے سب سے پہلے موجود ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار ہم بہن بھائی اس بات سے چڑ جاتے ہیں انہیں کہتے ہیں یاد کریں کیا ہوا تھا وہ ہنستی ہیں اور کہتی ہیں بس کیا کروں تم لوگ، کوئی بات نہیں میں تو ایسے ہی مدد کروں گی یہ سب تو چلتا رہتا ہے۔

اتنی محبت کے باوجود میں انہیں انگریز ماں کہتی ہوں۔ اس کی ایک وجہ ہے۔ ان کاکسی کو واضح طور پہ کسی بات سے نہ ٹوکنا ہے۔ مجھے کبھی کبھار برا لگتا ہے کہ اگر گھر کا کوئی فرد کوئی ایسا کام کر رہا ہے جو پریشانی کا باعث ہے تو وہ اسے کیوں منع نہیں کرتیں۔ وہ جواباً کہتی ہیں تم لوگوں کو پال دیا ہے، تعلیم دی ہے، تربیت دی ہے اب جو ٹھیک لگے کرو میں منع نہیں کر سکتی۔ یہی بات ذمہ داری پیدا کرتی ہے وہ نگران نہیں راہبر بنتی ہیں جو راستہ نہیں دکھاتا بلکہ راستہ کھوجنے کی جستجو جگاتا ہے۔

میں خوش نصیب ہوں اللہ پاک کی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے پور پور محبت میں بھگویا ہے۔ مجھے محبت کے ہالے میں بند رکھا ہے۔ اس رحمت کا کوئی بدل نہیں، نہ ہی اس محبت کا بدلہ کسی صورت دیا جا سکتا ہے۔ سوچتی ہوں ماوں کا ایک دن منانے میں کیا حرج ہے، کیا حرج ہے کہ انہیں ایک دن کے لیے بھر پور وقت دیا جائے۔ اس محبت کا ایک ہلکا سا حصہ ان پہ نچھاور کیا جائے جو وہ ہمہ وقت ہم پہ لٹاتی ہیں۔ انہیں بتایا جائے کہ ماں مجھے آپ سے محبت ہے اتنی شدید کہ بیان سے ممکن نہیں۔

انہیں خاص ہونے کا احساس دلایا جائے کہ وہ دنیا کے تمام رشتوں میں سب سے منفرد اور ممتاز مقام پر موجود ہیں۔ اپنے گونگے، مصروفیت میں دبے ہوئے جذبے کو بیدار کر کے اس ہستی پہ لٹایا جائے جس کے وجود کے ہم ٹکڑے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ہستی ہے۔ مجھے دنیا کی تمام ماؤں سے محبت ہے اور آپ کے جذبہ محبت سے بے تحاشا عقیدت ہے۔

Check Also

Maaf Kijye Ga Sab Acha To Nahi

By Haider Javed Syed