Ibn e Adam Ke Naam Bint e Hawwa Ka Khat
ابن آدم کے نام بنت حوا کا خط
میرے پیارے!
تم جانتے ہو میری اور تمہاری تخلیق ایک ہی خمیر سے ایک ہی مٹی سے کی گئی ہے۔ اس بات کا حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ میں تمہارا حصہ ہوں یا تم میری ذات کا پرتو۔ سچ کہوں تو تم مجھ سے ہو اور میں تم سے۔ ہم میں دوئی کہاں ہے نہ تخلیق میں نہ ہی جسمانی اور روحانی تعمیر میں۔ تم اور میں ایک نہ ہوتے تو ایک دوسرے کا لباس کیونکر کہلاتے۔
میرے پیارے ہم میں دوئی کہاں سے آئی ہے میں سمجھ نہیں پاتی لیکن یہ بات سمجھ سکتی ہوں کہ تمہیں اور مجھے دو گروہوں میں نہیں بلکہ دو الگ مخلوقات میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف تم ایک باس ہو، حکمران ہو، بہتر ہو، برتر ہو، اور میں ماتحت ہوں، رعایا ہوں، کمتر ہوں، باندی ہوں۔۔
اتنا فرق ایسا امتیازی سلوک کہ میں چیخ اٹھتی ہوں۔ میرے بارے میں وہ باتیں ہوتی ہیں، مجھے ایسے درجوں پہ رکھا جاتا ہے کہ میں حیران ہوتی ہوں ایک طرف تو میں احمق ہوں اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتی اور دوسری جانب تمہاری عزت کا بار گراں مجھ صنف نازک پہ ہے، ایک طرف میں تمہارے گھر کی محافظ تمہاری نسلوں کی تربیت کرنے والی ماہر، تو دوسری طرف تم سوال اٹھاتے ہو کہ میں ملازمت کر بھی سکتی ہوں یا نہیں، ایک طرف تو میں اتنی کمزور کہ کسی کی سوچ پہ کوئی اثر نہیں ڈال سکتی تو دوسری طرف محض میرے لباس سے تمہاری سوچ، نظر سب بدل سکتا ہے۔
پیارے یہ کیسے سوالات ہیں جو تم مجھ پہ اٹھاتے ہو۔ میری فرد کے طور پہ آزادی تو ایک طرف تم ایسی بے معنی باتوں کو اتنی اہمیت دیتے ہو کہ ہمارے انسانی مسائل جو بھوک، پیاس، بےروزگاری، شہری شعور کی کمی جنگ اور دہشت گردی کے ہیں میں اور تم مل کے ان پہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
میں کہاں چل پڑی ہوں یہ کیسی باتوں میں الجھ گئی ہوں۔ میرا اور تمہارا وجود ایسے تقسیم ہوا ہے ہم دو ایسی دنیاوں کے باسی ہو چکے ہیں کہ صرف ہمیں حاکم و محکوم کا رشتہ ہی یاد رہ گیا ہے۔ تم مجھ پہ صدیوں سے حکمرانی کے ایسے عادی ہوئے ہو کہ اب میں وہ باغی بننے لگی ہوں جو صرف بدلہ چاہتا ہے۔ حکمران کو محکوم دیکھنا چاہتا ہے۔ میں ہر بات پہ جھگڑنے لگی ہوں وہ خاندانی اکائی کو مستحکم کرنے کے لیے محبت کی بات ہو یا پروفیشنل زندگی میں برابری کی۔ ہم ایسی اکائی میں بٹ گئے ہیں کہ صرف جھگڑنا چاہتے ہیں۔
بھلا بیٹھے ہیں کہ مرد و عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ مل جل کے چلیں گے تب ہی سفر آسان ہوگا۔ میں اور تم کی تقسیم اتنی شدید ہے کہ ہم ہونا یاد ہی نہیں رہا۔ ہمیں مل کے چلیں گے تب سفر کٹے گا خوشگوار ہوگا۔ ہم ساتھ ہوں گے تو دکھ سکھ جھیل پائیں گے۔ اگر ایسے لڑیں گے کہ کہ اپنے جذبات، احساسات، خیالات، کام کی تقسیم کار کو تنگ تریں دائروں میں بانٹ لیں تو گھٹ جائیں گے۔ ایسی گھٹن جہاں سے بچ جانے کا کوئی راستہ نہیں ملے گا۔ مجھے تمہارے ساتھ چلنا ہے۔ نہ تو تمیں حکمران دیکھنا ہے نہ ہی خود تم پہ حکومت کرنی ہے۔
اپنے اور میرے اصل کو پہچانو ہم ایک ہیں۔ انسانی نسل کے محافظ تمہارے یا میرے بنا اس کا بقا ممکن نہیں۔ تم اور میں کی بحث سے نکلو، یہ سوچو کہ انسانوں کو کیا چاہیے اپنی بقاکی جنگ جیتنے کے لیے سمجھو کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے ہیں۔ ہم ہوں گے تو ہمارا نام رہےگا۔ بقا کا سفر جاری رہے گا۔ تقسیم رہی تو کچھ باقی نہیں بچے گا سوائے اس تنہائی کے جس سے بچنے کے لیے انسان نے محبت کرنا سیکھا تھا۔ پہلے گروہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ تہذیب کے سفر میں آگے بڑھنا ہے یا تنہائی کی جانب ابتدائی دور میں لوٹ جانا ہے۔ یہ میری تمہاری ہم سب کی بقا کا سوال ہے۔
تمہاری اپنی
بنت حوا