Mian Mobile Ki Faryad
میاں موبائل کی فریاد
کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد خود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر
"پندرہ سال کی عمر تک بچوں کو موبائل سے ایسے دور رکھیں جیسے پٹرول کو آگ سے دور رکھا جاتا ہے۔ " دو دن پہلے ایک صاحب گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بائیں ہاتھ سے چائے کی پیالی اٹھائے مجھے اپنی گود میں رکھ کر اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے میرے انگ انگ کو ایسے ٹٹول رہا تھا جیسے کوئی شدید خوار البیلا شبِ زفاف میں نئی نویلی اور سجی سنوری دلہن کے غازے سے لیس گالوں پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہے۔
پتا نہیں اچانک جناب کی طبیعت کیوں گدگدائی کہ چائے کی پیالی ادھوری چھوڑ کر مجھے دونوں ہاتھوم سے تھام کر آج کے والدین کے نام، بچوں کی کردار سازی کے حوالے سے، اپنا نظریہ درج کرنے لگا۔ اپنی بکواسیات میں جناب نے مجھے بھی خوب رگیدا کہ میری صحبت میں 15 سال سے کم عمر کے بچوں کی زندگی میں ویسا ہی طوفان برپا ہوگا جیسے آگ اور پٹرول کے ملاپ سے برپا ہوتا ہے۔ اب پہلے تو میں اس کی نمک حرامی پر حیران تھا کہ جناب میرا سہارا لے کر مجھے ہی کاٹ کھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
دوسرا یہ کہ جناب سے پہلے کسی بھی ادیب یا دانشور نے میری شان میں اس طرح کی کوئی گستاخی کرنے کی جرات نہیں کی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے کسی محفل میں کہا تھا کہ "عورت اور زمین کی کشش میں کچھ خاص فرق نہیں دونوں انسان کو خاک میں ملا دیتی ہیں۔ " لیکن میں اور پٹرول؟ بات پلے نہیں پڑتی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ جناب کی اس تحریر کا سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوتے ہی اس کی فرینڈ لسٹ سے ہی کوئی میرا طرفدار نکل آیا اور اسے کھری کھری سنا دی ورنہ میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے الزام میں اس پر کیس کرنے والا تھا۔
خیر جب جناب نے اپنا فلسفہ جھاڑا ہی ہے تو مجھے بھی اپنی دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ جناب (جس کی شامیں میری صحبت میں کٹا کرتی ہیں) کا خیال ہے کہ میں وقت کا ضیاع ہوں۔ میری سنگت میں جو وقت گزرتا ہے بہتر ہے وہ کتابوں کی محفل میں گزرے۔ یار ٹھیک ہے مطالعہ اور کتاب دوستی ایک اچھا مشغلہ ہے لیکن میں تو ایک چلتی پھرتی لائبریری ہوں۔ دنیا کی وہ کونسی کتاب ہے جو میری دسترس سے باہر ہے؟ وہ کونسا علم ہے جس تک میری پہنچ نہیں؟
سائنس، فلسفہ، سیاست، ادب، معاشیات یہ سارے روز مجھے سجدہ کرتے ہیں۔ میں گھر بیٹھے بیٹھے آپ کو پوری دنیا کی سیر کرا سکتا ہوں۔ سیکنڈوں میں آپ کو دنیا کے چپے چپے میں پہنچا سکتا ہوں۔ مجھ سے پہلے حضرتِ انسان اپنے پیاروں کی آواز سننے کو ترستا تھا۔ مہینوں ان سے ملاقاتیں نہیں ہوتی تھیں۔ سالوں بعد کوئی خط گرتا پڑتا پہنچ جاتا تھا۔ اب ہر خط میں غالب کا انداز بیان تو نہیں ہوتا کہ ہجر میں وصل کا مزہ آتا۔ بس مشکل سے زندہ ہونے کی خبر مل جاتی تھی۔ اب میں تو روز آپ کو آپ کے پیاروں کی دیدار کراتا ہوں۔ یوں سمجھیں کہ پوری دنیا کو آپ اپنی جیب میں لے کر گھوم رہے ہیں۔
مجھ پر بلاوجہ یہ الزام ہے کہ میں نے لوگوں کے دلوں سے محبت ختم کر دی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے ایک ہی محفل میں بیٹھے ہوئے لوگ میری وجہ سے آپس میں ہم کلام نہیں ہوتے۔ یار زمانے کی تبدیلی اور حب مال و دولت کا الزام مجھ پر تو نہ لگائیں۔ میں نے تو فاصلوں کو کم کیا ہے۔ میں نے لوگوں کی مشکلات کو آسان کیا ہے۔ میرے سہارے تو کروڑوں بے روزگار گھرانوں کے چولھے جلتے ہیں۔ ان کے چہروں پہ مسکان آتا ہے۔ مجھ میں یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بک اور فری لانسنگ جیسے ہزاروں بازار موجود ہیں جہاں ہر عام و خاص اپنا تیار کردہ مال بیچ کر منافع کماتا ہے۔ ان میں 15 سال سے کم عمر کے بھی لاکھوں بچے شامل ہیں۔
بھائی جان کوئی بھی چیز خراب یا مہلک نہیں ہوتی۔ اس کا استعمال ہی اسے مہلک یا فائدہ مند بناتا ہے۔ اب میرا درست استعمال کرنے کے بجائے آپ چوبیسوں گھنٹے مجھ میں گیمز چلاتے ہیں۔ یوٹیوب اور فیس بک جیسے بازاروں میں اپنی دکان کھول کر کمانے کے بجائے خالی بازار کی آوارہ گردی میں اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتےہیں، تو اس میں، مجھ بے چارے کا کیا قصور؟ اب اگر کوئی اس وجہ سے مجھے مضر صحت سمجھ کر میری صحبت ترک کر دے کہ میں اس کا وقت ضائع کرتا ہوں۔ تو نادانی سے میرا کیا جاتا ہے؟ بیٹھے رہو تصور جاناں کیے ہوئے۔
میں اگر آپ کی زندگی کے 5 سال ضائع کرتا ہوں تو ان پانچ سالوں کے بدلے میں کتنا فائدہ دیتا ہوں ان کا بھی شمار کیجیے۔ گاڑی اور ہوائی جہاز کی نسبت پیدل سفر کرنا یقیناً انسانی زندگی کے لیے محفوظ تر ہے، کیوں کہ مشینوں کو حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ اب کوئی گاڑی کا استعمال ترک کر کے پیدل ملکوں کا سفر شروع نہیں کرتا کہ اس کی زندگی کو کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اسی طرح مجھے پٹرول تصور کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں میرا صحیح استعمال سکھائیں۔ مجھ سے فائدہ اٹھانا سکھائیں۔
مجھ میں جو ٹیکنالوجی کی دنیا آباد ہے اور جس سے امیر ممالک لاکھوں کروڑوں کما رہے ہیں، اس سے آپ اپنی نئی نسل کو آگاہ کریں۔ تاکہ وہ فالتو میں ڈگری ہاتھ میں لے کر سیاست دانوں کی منت اور در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد مایوس ہو کر خود کشی کر لینے کے بجائے اپنا کوئی آنلائن کاروبار شروع کر سکیں۔ اور یقیناً اگر آپ کی صحیح رہنمائی رہی تو آپ کا بچہ 15 سال تک پہنچتے پہنچتے کمانا شروع کر چکا ہوگا۔ ورنہ بڑھاپے میں مجھ سے آشنا ہو کر آپ صرف میرا فلش لائٹ ہی استعمال کر سکیں گے اور سارا دن فیس بک اور یوٹیوب پر آوارہ گردی کر کے اپنا وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ بھی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔