Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Zindagi Aur Mushkilat Ka Hal

Zindagi Aur Mushkilat Ka Hal

زندگی اور مشکلات کا حل

زندگی کا سفر دراصل ایک جہدِ مسلسل ہے۔ یہ سفر محض ہموار سڑک نہیں بلکہ ایک ایسا پرخطر راستہ ہے جہاں قدم قدم پر گھنے جنگل (ذہنی الجھنیں) اور بے آب و گیاہ صحرا (تنہائی اور فقدان) آتے ہیں۔ ہر انسان کو اس الٹ پھیر بھرے سفر میں بے امیدی، بے یقینی، ذاتی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رکاوٹیں صرف راستے کی بندش نہیں ہیں۔ یہ فطرت کا وہ امتحان ہیں جو ہماری ہمت، ہمارے کردار کی پختگی اور ہمارے اندرونی یقین کی طاقت کو پرکھتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ کس طرح ہم ان چیلنجز کو محض مشکلات سمجھنے کے بجائے، زندگی میں ایک نئے اور مضبوط آغاز کے مواقع میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ بے امیدی دراصل ایک نفسیاتی تاریکی ہے جو کسی بھی بڑے دھچکے، مسلسل ناکامیوں، یا کسی طویل بیماری کے بعد روح پر چھا جاتی ہے۔ انسانی زندگی میں یہ وہ مرحلہ ہے جب انسان کو ہر طرف اندھیرا نظر آتا ہے اور وہ عمل کی قوت کھو کر قسمت کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ یہ صرف ناکامی نہیں بلکہ عمل سے فرار کا نام ہے۔ دوسری جانب بے یقینی کا احساس خاص طور پر اس جدید دور میں بہت زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوکری کا عدم تحفظ، معاشی اتار چڑھاؤ، صحت کے بحران، یا رشتوں میں دراڑیں مستقبل کے بارے میں ایک گہرا اور ٹھنڈا خوف پیدا کرتی ہیں۔ یہ خوف ہمیں نتائج کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج کل نوجوان نسل "اوور تھنکنگ" کا بہت زیادہ شکار ہے۔ حد سے زیادہ سوچ کے نتیجے میں ہماری موجودہ صلاحیتیں اور عمل مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انفرادی مسائل میں کسی بڑے مالی نقصان، پیاروں کی موت یا دائمی بیماری جیسے کٹھن امتحانات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ سب ہماری ذات کو جڑ سے ہلا دیتے ہیں۔ ان سخت مراحل میں ہماری بقا کا دار و مدار صرف استقامت، امید اور صبر پر ہوتا ہے۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنا نہایت اہم ہے کہ مشکلات عارضی ہوتی ہیں۔ ہر کسی کی زندگی میں مشکلات اور رکاوٹیں لازمی جزو ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اس ابدی سچائی کی تصدیق ہوتی ہے کہ "بے شک ہر تنگی کے بعد آسانی ہے"۔ سورۃ الشرح (الم نشرح) - آیات 5 اور 6۔ سورۃ: البقرہ کی آیت نمبر 286میں واضح کردیا گیا ہے کہ "اللہ کسی جان پر اس کی طاقت (استطاعت/گنجائش) سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا"۔ یہ آیت مومنوں کے لیے ایک بہت بڑی تسلی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں ان پر ایسے فرائض اور احکام عائد نہیں کیے جو ان کی برداشت اور طاقت سے باہر ہوں۔

یہ ایک ایسا بنیادی اصول ہے جو مایوسی کے عالم میں بھی ہمیں ایک نئے حوصلے سے نوازتا ہے۔ ان مسائل سے نکلنے کے لیے پانچ عملی اور اہم راستے درکار ہیں۔ سب سے پہلے یقین کی طاقت ہے۔ سب سے بنیادی قدم اپنے اندر اس پختہ ایمان کو قائم کرنا ہے کہ وقت ہمیشہ بدلتا ہے۔ جس طرح دن اور رات کا چکر اٹل ہے۔ اسی طرح دکھ اور سکھ کی گردش بھی یقینی ہے۔ اس یقین سے انسان بڑے سے بڑے طوفان میں بھی لنگر ڈال کر کھڑا رہ سکتا ہے۔ چھوٹے اہداف اور مسلسل عمل جب انسان بے یقینی کے بھنور میں پھنس جائے تو بڑے اور مشکل اہداف سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے بجائے چھوٹے، روزانہ کی بنیاد پر قابلِ حصول اہداف بنائیں اور انہیں مکمل کریں۔ اپنے ذہن کے اندر چلنے والی منفی گفتگو کو پہچانیں اور شعوری کوشش سے اسے مثبت سوچ سے بدل دیں۔ زندگی کے ہر اتار چڑھاؤ کو ایک ناگزیر حصہ سمجھیں اور ان میں چھپے ہوئے سبق اور حکمت کو تلاش کریں۔ یہ رویہ آپ کو ایک فاتح کے طور پر ابھارے گا۔

دوسروں سے رابطہ اور مدد تنہائی بے امیدی کی سب سے بڑی جڑ ہے۔ اپنے دوستوں، خاندان یا پیشہ ور ماہرین اور کولیگز سے بات چیت کو یقینی بنائیں۔ اپنے دل کا بوجھ کسی دوسرے کے سامنے ہلکا کرنا کمزوری نہیں بلکہ شدید ہمت اور خود شناسی کی نشانی ہے۔ ناکامی کو سبق سمجھنا ناکامی یا مشکل کو کبھی بھی ذاتی سزا یا بدقسمتی نہ سمجھیں۔ یہ دراصل ایک تجربہ ہے۔ ایک انمول فیڈ بیک لوپ جو آپ کو بتاتا ہے کہ کیا کام نہیں کیا اور اگلی کوشش کس مختلف حکمت عملی سے کرنی ہے۔

تاریخ ایسے بے شمار کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ناممکن حالات سے نکل کر دنیا پر گہرا اثر چھوڑا۔ ٹامس ایڈیسن کا بلب کی ایجاد سے قبل ہزاروں مرتبہ ناکام ہونا اور پھر اس ناکامی کو تجربے کا نام دینا، استقامت کی بہترین مثال ہے۔ ان کی لگن یہ ثابت کررتی ہے کہ کامیابی بار بار کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ نیلسن منڈیلا کا نسل پرستی کے خلاف اپنی غیر متزلزل جدوجہد کے سبب 27 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا، صبر اور یقین کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ان کی رہائی جنوبی افریقہ میں آزادی اور مساوات کا دور لے آئی۔ جے کے رولنگ کا "ہیری پوٹر" لکھنے سے پہلے ایک غریب سنگل مدر کی حیثیت سے زندگی گزارنا اور متعدد پبلشرز سے رد کیے جانے کے باوجود اپنی تخلیقی لگن کو نہ چھوڑنا، ہمیں سکھاتا ہے کہ سچی لگن کبھی ضائع نہیں ہوتی۔ ان تمام کہانیوں اور واقعات کا نچوڑ فیض احمد فیض کے اس لازوال شعر میں سمویا ہوا ہے:

دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

حاصل بحث یہ ہے کہ زندگی میں بے امیدی، بے یقینی اور مشکلات کا وجود فطری اور ناگزیر ہے۔ حقیقی کامیابی ان سے بچ نکلنے میں نہیں۔ ان سے نمٹنے، ان کا سامنا کرنے اور ان کے بعد مزید مضبوط ہو کر ابھرنے میں ہے۔ ہمیں ان عظیم شخصیات کی استقامت کو اپنی مشعلِ راہ بنانا ہے۔ اپنے دل کے اندر امید کا شعلہ روشن رکھنا ہے، اپنے خالق پر کامل یقین رکھنا ہے اور کبھی بھی عمل سے ہاتھ نہیں کھینچنا ہے۔ کیونکہ یہ مشکل وقت یقیناً ایک "شام" ہے اور کائنات کا اصول ہے کہ ہر تاریک شام کے بعد ایک روشن اور نئی "سحر" ضرور طلوع ہوتی ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail