Ypres Ki Jangain
ییپرس کی جنگیں
ییپرس یا لیپر بیلجیم کے مغربی صوبے فلینڈرس میں واقع ایک شہر ہے۔ اس میں بہت سے قبرستا ن، یادگاریں اور میوزیمز ہیں۔ جو جنگ عظیم اول کی یاد میں تعمیر کیے گئے۔ جنگ کے دوران تباہ ہو جانے والی اہم عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ جن میں سینٹ مارٹن کا کتھیڈرل بھی شامل ہے۔ اس شہر میں 1955 سے لے کر اب تک ہر تین سال بعد مئی کے دوسرے اتوار کو ایک کیٹ پریڈ بھی ہوتی ہے۔ جس میں مصنوعی بلیوں کو ایک چوک میں آکرپھینکا جاتا ہے۔
اپریل 1914 کو بیلجیم کے اسی شہر ییپرس میں سینڑل پاور جرمنی اور اتحادی افواج کی فورسز ایک دوسرے کے آمنے سامنے مختلف فارمیٹ بنائے حالت جنگ میں تھے۔ لڑائی اپنے معمول کے مطابق جاری تھی کہ اتحادی افواج نے سفید اور نیلے بادل یا دھوئیں اپنی طرف بڑھتے دیکھے۔ ان کے مطابق یہ کوئی بادل یا دھواں ہو سکتا تھا۔
لیکن جیسے ہی وہ دھوئیں کے بادل ان کے درمیان سے ہوتے ہوئے گزرے تو دیکھتے ہی دیکھتے فرانسیسی، بیلجین اور برطانوی فوجیوں کو سانس لینے میں دشواری ہوئی۔ یکا یک سارے فوجی دم گھٹنے سے گرنا شروع ہوگئے۔ اس ساری صورتحال میں گرتے پڑتے سپاہیوں اور مورچہ زن جوانوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ بہت زیادہ اموات ہو جانے کے بعد اتحادی فورسز پر موت کا یہ راز کھلا۔ کہ جرمن افواج نے ان پر زہریلی گیس سے حملہ کیا ہے۔ جس وجہ سے وہ موت کے منہ میں چلے گئے۔
اس ساری کاروائی میں کوئی گولی چلی، توپ یا مارٹر کے گولے اور نہ ہی کوئی بم پھٹا۔ زہریلی گیس نے لاکوں فوجیوں کو چند منٹوں میں موت کی ابدی نیند سلا دیا۔ جرمن افواج نے اس سارے وقوعے سے پہلے ہوا کے رخ کا بغور جائزہ لیا۔ جب ہوا اتحادی افواج کی طرف چلنا شروع ہوئی تو انہوں نے گیس کا اخراج کر دیا۔
ہوا کے بہاؤ کے ساتھ مذکورہ زہریلی گیس نے اپنے سامنے آنے والے ہر انسان کا خاتمہ کر ڈالا۔ اس زہریلی گیس کے حملے کو جنگ عظیم اول میں جنگ ییپرس کا نام دیا جاتا ہے۔ بیلجیم کے اس شہر پر کل پانچ معرکے ہوئے۔ پہلا معرکہ اکتوبر سے نومبر 1914 کے درمیان ہوا۔ اس معرکے میں مرکزی قوت جرمنی اور اتحادی قوتیں برطانوی ایکسپڈشنری فورس، فرنچ فورسز اور بیلجین افواج نے حصہ لیا۔
اس معرکے کو 'ریس ٹو دا سی' بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں قوتوں نے سمندر کی طرف مارچ کرنے اور دشمن سے سبقت لے جاتے ہوئے سمندر میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی خاطر لڑائی لڑی۔ جرمن فورتھ آرمی اور فرنچ مرین نے اس جنگ میں شرکت کی۔ دونوں جانب سے قریبا ایک ملین سے زیادہ جانوں کا ضیاع ہوا، لیکن یہ معرکہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا۔
دوسرا معرکہ اپریل اور مئی 1915 کو پیش آیا، جس میں سب سے پہلے جنگی تاریخ میں زہریلی گیس کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ قریبا ایک لاکھ کے قریب فوجی اس گیس سے لقمہ اجل بن گئے۔ جب جرمنز نے جان لیوا گیس کا اخراج کیا تو وہ خود بھی دشمن کی طرف پیش قدمی کرنے سے ہچکچاتے رہے، کیونکہ ان کے پاس اس گیس سے بچاؤ کیلئے کوئی ماسک نہیں تھا۔
اگر دوران اخراج گیس ہوا کا رخ تبدیل ہو جاتا تو خود جرمن اس کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ ایسا ہی ایک منظر لوس کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں دیکھنے کو ملا، جب اتحادیوں نے جرمنز کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا۔ اتحادی بھی جرمنز کی طرح ہوا کے رخ کو تبدیل ہونے کے لیے انتظار کرنے لگے۔ جب ہوا کا رخ پوری طرح تبدیل نہ ہوا تو انہوں نے گیس کو خارج کر دیا۔
ہوا چونکہ مکمل طور پر جرمنز کی طرف تبدیل نہیں ہوئی تھی، لہذا برطانوی فوجی اپنی ہی چھوڑی ہوئی گیس کی زد میں آکر مرگئے۔ ان کی طرف سے یہ حملہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ تیسرا معرکہ جولائی سے نومبر 1915 کو ییپرس کے مقام پر ہوا۔ اس معرکے میں 4 سے 8 لاکھ فوجی دونوں جانب سے جاں بحق ہوئے۔ یہ معرکہ پاشینڈیل کی جنگ کے نام سے مشہور ہے۔
بنیادی طور پر اتحادی فورسز اور جرمنز کے دمیان یہ جنگ مشرقی اور جنوبی پہاڑیوں پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں لڑی گئی۔ پاشینڈیل ییپرس کے مشرقی پہاڑیوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ اس معرکے میں اتحادی کامیاب رہے اور مذکورہ علاقے پر قابض ہوکر اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم اور مضبوط کر لیا۔
مذکورہ جنگ میں ایک طرف اکیلا جرمنی تھا تو دوسری طرف انگلینڈ، فرانس اور بیلجیم کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، برصغیر پاک و ہند اور روڈیشیا کے فوجی جوانوں نےحصہ لیا۔ فرانس اور انگلستان دونوں کی جانب سے کل 56 ڈویژنز نے حصہ لیا، جبکہ جرمنی کی 77 سے 83 ڈویژنز کا نقصان ہوا۔ لیس کی جنگ کو چوتھا ییپرس کا معرکہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ معرکہ اپریل 1918 کو وقوع پذیر ہوا۔ جرمن جنرل ایریک لوڈین روف نے تیار کیا اور اس کو آپریشن جارج کا نام دیا۔
بعد میں کمی بیشی کرتے ہوئے، اس کو آپریشن جارجیٹ کر دیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد پورے ییپرس کو جرمن قبضے میں کرنا اور برطانوی فورسز کو سمندر کی طرف دھکیل کر پسپا کرنا تھا۔ اگرچہ جرمنز نے قریبا 15 کلومیٹر تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن وہ اپنے منصوبے میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ جرمن قبضہ ہو جانے کے بعد فرانس کی طرف سے ری انفورس منٹ مل جانے پر اتحادیوں نے اپنی پوزیشن کو مستحکم کر لیا۔
اس طرح لڑائی دوبارہ شروع ہونے پر جرمنز کا بے تحاشہ نقصان ہوا اور جرمنز کی پوزیشن خراب ہوگئی۔ جرمن ہائی کمان کو جب اس تبدیل شدہ پوزیشن کا بتایا گیا تو انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس آپریشن کو روک کر ترک کر دیا۔ پانچواں اور آخری معرکہ ییپرس ستمبر اور اکتوبر 1918 کو پھر پیش آیا۔ اس میں اتحادی افواج فاتح تھے۔
آخری لڑائی میں اتحادیوں کی 28 ڈویژنز نے شرکت کی جبکہ جرمنز کی 16 ڈویژنز نے اپنی قسمت آزمائی۔ اس معرکے میں دس ہزار کے قریب جنگی قیدی بنے۔ تین سو گنز اور چھ سو مشین گنز اس لڑائی میں استعمال ہوئیں۔