Truman Doctrine
ٹرومین ڈاکٹرائن
"مجھے یقین ہے کہ ریاستہائے متحدہ کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ آزاد لوگوں کی حمایت کریں جو مسلح اقلیتوں یا بیرونی دباؤ کے ذریعہ محکوم ہونے کی کوششوں کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں آزادانہ لوگوں کی مدد کرنی ہوگی تاکہ وہ اپنی تقدیر کو اپنے طریقے سے انجام دے سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری مدد بنیادی طور پر معاشی اور مالی امداد کے ذریعہ ہونی چاہئے جو معاشی استحکام اور منظم سیاسی عمل کے لئے ضروری ہے۔"
یہ وہ الفاظ ہیں جو 33ویں امریکی صدر ہینری ٹرومین نے 1947 میں ایک تقریر میں کہے۔ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا حصہ بنے جس سے امریکہ پوری دنیا میں بطور سپر پاوراپنا اثر و رسوخ اور کردار ادا کرنے لگا۔ ٹرومین ڈاکٹرائن ایک ایسی امریکی خارجہ پالیسی تھی جس کا بنیادی مقصد سرد جنگ کے دوران سوویت جغرافیائی و سیاسی توسیع کو روکنا تھا۔ سب سے پہلے ٹرومین نے یونان اور ترکی میں کمیونسٹ بغاوتوں پر قابو پانے کا وعدہ کیا۔ عام طور پر براہ راست امریکی فوجی فورس اس میں شامل نہیں تھی لیکن کانگریس نے یونان اور ترکی کی معاشی اور عسکریت پسندوں کی مدد کے لئے مالی امداد مختص کی۔ اس نظریے کا مطلب سوویت کمیونزم کے خطرہ دوچار دوسری قوموں کے لئے امریکی حمایت تھی۔ یہی نظریہ نیٹو کے قیام کی بنیاد بن گیا۔ مورخین اکثر ٹرومن کی تقریر کو سرد جنگ کے اعدادوشمار کی تاریخ تک استعمال کرتے ہیں۔
ٹرو مین نے اپنے اس نظریے کو دو وجوہات سے جسٹی فائی کیا۔ اس کے مطابق روسی کمیونسٹ کی یونان کی خانہ جنگی میں فتح ترکی کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے جو آگے چل کر مشرق وسطیٰ کے استحکام کو کمزور کرسکتی ہے۔ بقول ٹرومین اس خطرے کو مزید پھیلنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ خطے کی سکیورٹی امریکی حکمت عملی کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ دوسرا امریکہ کو ہر صورت آزاد لوگوں کی جمہوری حکومتوں کو چلنے اور بیرونی قوتوں کی محکو می سے بچنے کیلئے مدد کرنا ہوگی۔
اسی ڈاکٹرائن کے سہارے تھانیدار امریکہ نے روس کو ہر اس خطے سے نکالاجہاں روس اپنے فلسفے اور طاقت پر مستحکم کھڑا تھا۔ روس سویت یونین سے صرف روس تک سکڑ گیا اور امریکہ اس خلا کو پر کرتا گیا۔ سویت روس ٹوٹنے پر نئی 15 ریاستیں وجود میں آگئیں۔ یہ روس کی سب سے بڑی شکست تھی۔ روس کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا اور امریکہ کا بڑھتا گیا۔ امریکہ اور روس میں جاری سرد جنگ کبھی کبھار حقیقی جنگ میں بھی دیکھنے کو ملی۔ مشرقی اور مغربی جرمنی میں خاتمہ اور دیوار برلن گرنے پر امریکہ کی یورپ میں واضح کامیابی ثابت ہوئی۔ پاکستان تو پہلے دن سے امریکی زیر اثر اپنی خارجہ پالیسی کو مرتب کر تا آیا تھا۔ آہستہ آہستہ امریکہ کھل کر اپنی مضبوط معیشت اور اتحادی ممالک کے تعاون پر پوری دنیا میں اپنے اتحادی بنانے لگا اور انہی اتحادیوں کی مدد سے ان ممالک میں خانہ جنگی اور جنگ کی سی کیفیت پیدا کرنے لگا۔ ہر وہ ملک جو امریکہ کی راہ میں رکاوٹ بنتا اسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جاتا اور نئی قیادت امریکی نگرانی میں کاروبار حکومت چلاتی۔
افغانستا ن میں جب امریکہ کی روس سے نپٹنے کی باری آئی تو پاکستان نے دونوں ہاتھوں سے امریکہ کو خوش آمدید کہا اور وہ جنگ لڑی جس کے اثرات ہمارے ملک میں دیر پا پیوست ہوگئے۔ پاکستان کلاشنکوف، افیون اور دوسری بربادیوں میں جکڑتا چلا گیا۔ ملک میں جہاد کیلئے نوجوانوں کو مذہبی بنیادوں پر بھرتی کیا جانے لگا اور روس کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرنے کی غرض سے ان نوجوانوں کو افغانستا ن میں اتار دیا گیا۔ جہادیوں کی وہ پنیری لگائی گئی جس سے پاکستان میں دہشت گردی کا تعفن پھیلنے لگا۔ اس سے ریاست اور ریاستی اداروں کے دشمنوں کی نشاندہی کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ دہشت گردی کی لہر جو ایک دہائی تک جاری رہی اس نے ملک کے تما م اداروں، عباد ت گاہوں اورنہتے شہریوں کو برا ہ راست نشانہ بنا یا۔
اس دہشت گردی میں شدت پسندی کا حسب ذائقہ اضافہ ان ممالک نے کیا جو ریاست پاکستان کو ہر صورت پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر امن ایک خواب بن کے رہ گیا۔ اس آگ کو بجھانے میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو متعدد آپریشنز کرنا پڑے جن میں بے شمار سول و عسکری زندگیاں بطور نذرانہ قربان ہوئیں۔ افغانستا ن میں امریکی آپریشنز نے افغان سرزمین کو دلدل بنا دیا جس میں امریکہ سمیت اسکے اتحادی سٹیک ہولڈرز دھنستے چلے گئے۔ پاکستان کو بدلے میں شدت پسندی، فرقہ واریت، بین الاقوامی جگ ہنسائی اور ذلت میسر آئی جسے غلط ثابت کرنےکیلئے دو دہائیاں گز ر چکی ہیں۔ آج بھی فیٹف کی تلوارہماری معیشت پر لٹکی ہوئی ہے۔ دوسری طرف آرمی چیف کا بیان واضح ہے کہ اپنے گھر کو درست کیا جائے اور ماضی کو دفن کیا جائے۔
ٹرومین ڈاکٹرائن نے دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کیا۔ ایک امریکی اور دوسرا روسی بلاک جس میں مختلف ممالک بطور حریف شراکت دار بنے۔ تیسرے نمبر پر وہ ممالک تھے جو ان دونوں بلاکس میں منقسم نہ ہوئے اور اپنی ملکی بھاگ دوڑ اپنی مدد آپ چلاتے رہے۔ امریکہ نے اسی نظریے کی بناپر ایشیا، یورپ اور افریقی ممالک میں اپنےملٹری اڈے بنائے اور مداخلت کرتے ہوئے ان میں تبدیلیوں کے ان مٹ نقوش چھوڑتا گیا۔ امریکی نظریہ امداداور جمہوری حکومتوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کی خاطر ہوتا تھا۔ ان دو بنیادی وجوہات کی بنا پر امریکہ ہر اس ملک میں داخل ہوجاتا جہاں روسی اثر یا کمیونسٹ طرز کی حکومت ہوتی تھی۔
21ویں صدی میں امریکہ نے اس نظریہ میں وار آن ٹیرر کا اضافہ کیا اور اپنے اس ڈاکٹرائن کو جاری رکھا جو کسی نہ کسی ہیئت میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
امریکی معیشت اب پہلے جیسی مضبوط نہیں رہی اور عالمی منطر نامہ بھی بدل چکا ہے۔ اس نظریے نے امریکہ کو کافی کھپا دیا ہے۔ امریکی دباؤ اور اثرو رسوخ کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ روس کی بجائے اب چین ایک معاشی جن کے طور امریکی معیشت پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔ اس کا اندازہ پچھلے امریکی صدر ٹرمپ کے اس نعرے سے واضح ہے جس میں وہ امریکہ کو سب سے پہلے اور امریکہ کو عظیم بنانےکا خواب دیکھتے رہے۔