Siasi Inqelabat (2)
سیاسی انقلابات (2)

1989 میں چیکوسلوواکیا میں ویلویٹ (مخمل) انقلاب آیا۔ اسے ویلویٹ انقلاب اس لیے کہا گیا کیونکہ یہ ایک پر امن اور غیر متشدد انقلاب تھا جس میں کسی قسم کی بڑی خونریزی یا مسلح جدو جہد نہیں ہوئی۔ مخمل کے کپڑے کا نام دینے کا مقصد اس کی نرمی، شائستگی اور بغیر کسی سخت تصادم کے کامیابی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سیاسی انقلاب کے نتیجے میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور جمہوریت قائم ہوگئی۔ چیکو سلواکیا 1948 سے ہی سویت یونین کے زیر اثر ایک کمونسٹ ملک تھا۔
1968 میں پراگ بہار کے نام سے ایک اصلاحی تحریک چل پڑی۔ اس تحریک کا مقصد آزادی کو فروغ دینا تھا۔ اس کے برعکس سویت یونین نے فوجی مداخلت کے سہارے اس تحریک کو جیسے تیسے دبا دیا۔ پھر 1977 میں چارٹر نامی ایک حزب مخالف گروہ نے انسانی حقوق کی فراہمی کے مطالبا ت کیے لیکن حکومت نے اسے سختی سے کچل دیا۔ پراگ میں طلبہ نے ایک پُرامن احتجاج کیا جس پر پولیس نے سخت تشدد کیا۔ اس کارروائی کے خلاف عوام میں غم و غصہ بڑھ گیا۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور ہڑتالوں کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت مستعفی ہوگئی۔ پارٹی نے اقتدار چھوڑنے کا اعلان کیا اور ملک میں جمہوریت بحال کرنے پر اتفاق ہوا۔
1989میں ہی یورپی ملک رومانیہ میں ایک خونریز سیاسی انقلاب برپا ہوا۔ یہ انقلاب نکولائے چاؤشیسکو کی حکومت کے خلاف آیا جس میں چاؤ اور اسکی اہلیہ دونوں کو سزائے موت دی گئی۔ انقلابات کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ایسے ہیں جن میں بادشاہوں، آمروں اور حکومتی عہدیداروں کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ انقلاب بنیادی طور پر عوامی غصے، معاشی بدحالی، آزادی پر پابندیوں اور چاؤشیسکو کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف ردعمل تھا۔ دسمبر 1989 میں یں احتجاج تیماشوارا شہر سے شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں پھیل گیا۔ حکومت نے احتجاج کے خلاف طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا لیکن فوج اور عوام کے درمیان اتحاد بن گیا۔ اس اتحاد نے چاؤشیسکو کی حکومت کو غیر مستحکم کر دیا۔ 25 دسمبر کو چاؤشیسکو اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کرکے فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ یوں رومانیہ میں کمیونسٹ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔
خطہ عرب بھی انقلابات سے نہیں بچ سکا۔ عرب بہار یعنی عرب اسپرنگ انقلابات 2010 میں تیونس سے شروع ہوئے اور تیزی سے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے کئی ممالک میں پھیل گئے۔ ان انقلابات کی بنیادی وجوہات میں بدعنوانی، آمرانہ حکمرانی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور انسانی حقوق کی پامالیاں شامل تھیں۔ تیونس میں ایک نوجوان سبزی فروش محمد بوعزیزی کی خودسوزی نے عوامی غصے کو بھڑکا دیا۔ اس کے بعد مصر، لیبیا، یمن، شام اور دیگر ممالک میں بھی احتجاجی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ کچھ ممالک میں انقلابات نے حکومتوں کا تختہ الٹ دیا۔ مثال کے طور پر مصر میں صدر حسنی مبارک اور لیبیا میں معمر قذافی جبکہ شام اور یمن میں خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئے۔ اگرچہ ان تحریکوں نے جمہوریت اور آزادی کے نعرے بلند کیے لیکن کئی ممالک میں عدم استحکام، جنگ اور نئے آمرانہ نظاموں کے ابھرنے کی وجہ سے یہ انقلابات مکمل طور پر کامیاب نہ ہو سکے۔ الجزائر، مراکش، اردن اور سوڈان وغیرہ میں بھی عوامی احتجاج کی لہر یں پیدا ہوئیں لیکن حکومت نے فوری رد عمل دیتے ہوئے اصلاحات کرکے ان احتجاجی لہروں کو ختم کر دیا۔
ٹیولپ انقلاب 2005 میں صدر اسکر آکایف کے تحت حکومتی کرپشن اور آمرانہ حکمرانی سے پیدا ہوئی گہری مایوسی سے ابھرا۔ کئی سالوں سے آکایف کی حکومت نے اقربہ پروری، انتخابی دھاندلی اور اپنے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے اندر اقتدار کی تقسیم مرکز سے مہکتی رہی۔ قرغزستان کا سیاسی منظر نامہ معاشی عدم مساوات اور محدود جمہوری آزادیوں سے متاثر تھا۔ یہ ایک ایسا مواد تیار ہو رہا تھا جو آخرکار انقلابی کارروائی کے بم پھٹنے کی صورت ہوگا۔
ٹیولپ انقلاب کے فوری محرک فروری اور مارچ دو ہزارپانچ کے پارلیمانی انتخابات کے دوران آئے۔ اپوزیشن گروپس اور بین الاقوامی مبصرین نے ان انتخابات کو بڑے پیمانے پر دھاندلی زدہ قرار دیا جس میں ووٹ خریدنے، دھمکانے اور منظم انتخابی بے قاعدگیوں کی متعدد رپورٹس موجود تھیں۔ احتجاج کرنے والوں جو کہ بڑے پیمانے پر نوجوان اور تعداد میں اکٹھے ہوئے نے آکایف کے استعفیٰ اور جمہوری عمل کے مطالبے کے ساتھ نتھی کر دیا۔
مارچ دو ہزارپانچ کو احتجاج کرنے والوں نے صدارتی محل پر حملہ کیا۔ اس حملے سے آکایف اور ان کے خاندان کو عملی طور پر ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ انقلاب دوسرے سیاسی اضطراب کی نسبت کافی پرامن تھا جس نے اسے "ٹیولپ انقلاب" کی اصطلاح دلائی، ملک کے خوبصورت ٹیولپ کے کھیتوں کی وجہ سے اور احتجاج کی پرامن فطرت کے باعث۔ یہ انقلاب قرغزستان کی سوویت کے بعد کی تاریخ میں ایک اہم لمحہ تھا جو پرامن سیاسی تبدیلی کی صلاحیت کی علامت تھا۔
ٹیولپ انقلاب کے بعد کرمان بیک باکیف کو صدر منتخب کیا گیا جنہوں نے ابتدائی طور پر جمہوری اصلاحات اور پچھلی حکومت میں موجود نظاماتی کرپشن کو دور کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ چند سالوں کے اندر ہی باکیف کی حکومت نے اپنے سابق صدر کی آمرانہ پریکٹسز کی نقل کرنا شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیاسی دمن اور معاشی چیلنجز میں اضافہ ہوا۔ یہ آمرانہ کوششیں ایک اور انقلابی لمحے کی تیاری کر رہی تھیں۔
دوسرا انقلاب جسے اپریل انقلاب یا دوسرا قرغز انقلاب کہا جاتا ہے 2010 میں آیا۔ معاشی تنگدستی، بڑھتی ہوئی اشیا کی قیمتیں اور مسلسل سیاسی عدم استحکام نے قرغز آبادی میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کو جنم دیا۔ باکیف کی حکومت مزید آمرانہ ہو چکی تھی، میڈیا کی آزادی کو محدود کر رہی تھی، اپوزیشن کو دبا رہی تھی اور اقتدار کو اپنے خاندان اور قریبی ساتھیوں کے ایک چھوٹے سے حلقے میں محدود کر رہی تھی۔
انسانی تاریخ میں ان انقلابات نے سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر استبدادی حکومتوں، بدعنوانی، عدم مساوات اور آزادی کی جدوجہد کے خلاف عوامی ردِعمل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ عرب اسپرنگ جیسے جدید انقلابات سے لے کر فرانسیسی، روسی اور ایرانی انقلاب تک ہر انقلاب نے اپنے وقت کے سیاسی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا اور نئے نظام کی راہ ہموار کی۔

