Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Sach, Ghalti Aur Fareb, Ettelaat Ki Jang

Sach, Ghalti Aur Fareb, Ettelaat Ki Jang

سچ، غلطی اور فریب، اطلاعات کی جنگ

اطلاعات سے مراد وہ خبریں یا پیغامات ہیں جو حقیقت پر مبنی ہوں۔ ایسی معلومات جو درست، مکمل اور قابلِ بھروسا ہوں انہیں اطلاعات کہا جاتا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں خبریں، کتابیں، انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں۔ درست معلومات فرد اور معاشرے کو صحیح فیصلے لینے میں مدد دیتی ہیں اور ترقی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ دوسری طرف غلط اطلاعات وہ ہوتی ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں لیکن دینے والا شخص انہیں سچ سمجھ کر آگے پہنچاتا ہے۔ یعنی اس میں بدنیتی شامل نہیں ہوتی بلکہ لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے غلط بات آگے پہنچائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی دوا کے فائدے کے بارے میں سنی سنائی بات کو سچ مان کر دوسروں کو بتا دےتو یہ غلط اطلاع کہلائے گی۔

ان دونوں کے بر عکس گمراہ کن اطلاعات وہ ہوتی ہیں جو جان بوجھ کر غلط طریقے سے پھیلائی جاتی ہیں تاکہ دوسروں کو دھوکہ دیا جا سکے یا کسی کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی گروہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا کر کسی سیاسی پارٹی یا شخصیت کو بدنام کرنے کی کوشش کرے تو یہ گمراہ کن اطلاع کہلاتی ہے۔

جنگ جیسے نازک حالات میں اطلاعات کی درستگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بھی ملک کی افواج، عوام اور حکومت کو فیصلہ کرنے کے لیے درست معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سچائی پر مبنی اطلاعات فراہم کی جائیں تو صحیح حکمتِ عملی اپنائی جاسکتی ہے اور نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جب جنگ کے دوران غلط اطلاعات پھیلائی جائیں۔ مثلاً یہ کہ دشمن حملہ کر چکا ہے یا ہمارے فوجی پیچھے ہٹ گئے ہیں تو عوام میں خوف و ہراس پھیل سکتا ہے اور افواج کا اعتماد متاثر ہو سکتا ہے۔ ان اطلاعات میں بدنیتی ہو نہ ہو مگر ان کا نقصان بہرحال ہوتا ہے۔

گمراہ کن اطلاعات جنگ میں بطور ہتھیار استعمال کی جاتی ہیں۔ دشمن جان بوجھ کر جھوٹی خبریں پھیلاتا ہے تاکہ انتشار پیدا ہو، عوام کی حوصلے کمزور ہوں یا افواج میں غلط فیصلے کیے جائیں۔ مثلاً اگر دشمن یہ جھوٹی خبر پھیلائے کہ ہماری اہم تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں یا بیرونی مدد نہیں آ رہی تو اس سے معاشی اور جذباتی طور پر بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، جعلی ویڈیوز اور جھوٹے بیانات آج کل گمراہ کن اطلاعات کو پھیلانے کے بڑے ذرائع بن چکے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں گمراہ کن اطلاعات کا استعمال بہت منظم طریقے سے کیا گیا۔ ایک مشہور مثال "آپریشن فورٹیٹیوڈ" ہے جس میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے جرمنی کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلائیں۔ انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ فرانس کے شہر پاس ڈی کلے پر حملہ کریں گے، حالانکہ اصل حملہ نارمنڈی میں ہونا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جعلی فوجی کیمپ، ربڑ کی ٹینکیں اور جھوٹے ریڈیو پیغامات استعمال کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی نے اپنی فوجیں غلط مقام پر لگا دیں اور اتحادی فوجوں کو اصل مقام پر کامیابی ملی۔ یہ ایک کلاسک مثال ہے کہ کیسے گمراہ کن اطلاعات جنگ کا رخ موڑ سکتی ہیں۔

ویتنام جنگ میں بھی غلط اطلاعات کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ٹونکن گلف واقعہ سنہ 1964 میں امریکی حکومت نے یہ دعویٰ کیا کہ ویتنام کی فوج نے امریکی بحری جہازوں پر حملہ کیا ہے۔ اس خبر کی بنیاد پر امریکہ نے جنگ میں باقاعدہ داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ حملہ یا تو ہوا ہی نہیں تھا یا پھر غلط فہمی کی بنیاد پر سمجھا گیا۔ اگرچہ اس واقعے میں بدنیتی کا عنصر واضح نہیں تھا لیکن یہ ایک غلط اطلاع تھی جس کا نتیجہ ہزاروں جانوں کے نقصان اور ایک لمبی جنگ کی صورت میں نکلا۔

عراق جنگ 2003 کی بنیاد بھی گمراہ کن اطلاعات پر رکھی گئی۔ امریکی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیا کہ عراق کے پاس "تباہی پھیلانے والے ہتھیار" موجود ہیں جو پوری دنیا کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ بعد ازاں کئی بین الاقوامی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ ہتھیار کبھی موجود ہی نہیں تھے۔ اس گمراہ کن اطلاع کی بنیاد پر عراق پر حملہ کیا گیا، حکومت گرائی گئی اور لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ جان بوجھ کر جھوٹی معلومات کیسے عالمی سطح پر خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں دونوں طرف سے سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر غلط اور گمراہ کن اطلاعات کا طوفان دیکھنے کو ملا۔ مثال کے طور پر، جھوٹی ویڈیوز، پرانی تصاویر کو نیا بنا کر پیش کرنا اور جعلی خبروں سے دنیا کی رائے عامہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اکثر عام لوگ لاعلمی میں ان ویڈیوز یا خبروں کو آگے بڑھاتے ہیں، جو غلط اطلاعات کہلاتی ہیں۔ مگر کچھ اطلاعات جان بوجھ کر دشمن کو نیچا دکھانے یا حمایت حاصل کرنے کے لیے پھیلائی گئیں، جو گمراہ کن اطلاعات کی مثال ہیں۔

یہ تاریخی مثالیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں، بلکہ "اطلاعات کی جنگ" میں بھی لڑی جاتی ہے۔ غلط یا جھوٹی معلومات عوامی رائے، پالیسی فیصلوں اور فوجی حکمتِ عملی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس لیے ایک باشعور شہری کے لیے یہ سیکھنا ضروری ہے کہ وہ معلومات کی سچائی کو پرکھے اور افواہوں کا شکار نہ بنے۔

سائبر دنیا میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ جب لوگ غلط معلومات پر یقین کر لیتے ہیں، تو وہ اپنی ڈیجیٹل سیکیورٹی کے حوالے سے خطرناک فیصلے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص یہ سن لے کہ "اینٹی وائرس کی کوئی ضرورت نہیں" یا "پاس ورڈ بار بار بدلنا نقصان دہ ہوتا ہے"، تو وہ ایسے مشوروں پر عمل کرکے اپنے موبائل یا کمپیوٹر کو ہیکنگ کے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اکثر لوگ جعلی ویب سائٹس یا جھوٹی ایپس پر بھروسا کرکے اپنے ذاتی ڈیٹا کا نقصان کر بیٹھتے ہیں اور یہ سب لاعلمی یا غلط اطلاعات کی وجہ سے ہوتا ہے۔

گمراہ کن اطلاعات زیادہ خطرناک ہوتی ہیں، کیونکہ یہ جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہیں۔ ہیکرز یا دشمن ممالک بعض اوقات سوشل میڈیا یا ای میلز کے ذریعے ایسی خبریں پھیلاتے ہیں جن سے عوام یا ادارے خوف کا شکار ہو جائیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی گروہ یہ جھوٹ پھیلائے کہ "بینک کا سسٹم ہیک ہو چکا ہے" تو لوگ فوری طور پر پیسے نکالنے لگیں گے، جس سے بینکنگ سسٹم میں بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات حکومتیں یا سیکیورٹی ادارے خود گمراہ کن معلومات استعمال کرتے ہیں تاکہ ہیکرز کو دھوکہ دے سکیں۔ اس حکمتِ عملی کو "ڈیسیپشن ٹیکنالوجی" کہا جاتا ہے۔ مثلاً، ایک سائبر سیکیورٹی ٹیم اپنے سسٹم میں جعلی ڈیٹا یا "ہنی پاٹ" رکھتی ہے، تاکہ ہیکر اُسے اصلی سمجھے اور جب وہ اس تک پہنچے تو پکڑا جائے۔ اس صورت میں گمراہ کن اطلاع فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

یہ تمام مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ سائبر سیکیورٹی میں صرف تکنیکی تحفظ ہی کافی نہیں، بلکہ معلومات کی سچائی کو پہچاننا اور ہوشیار رہنا بھی بہت ضروری ہے۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے محتاط ہو، تصدیق شدہ ذرائع سے معلومات حاصل کرے اور مشکوک ایپس، ای میلز یا ویب سائٹس سے بچے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail