Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Pakistani Aamriyat (1)

Pakistani Aamriyat (1)

پاکستانی آمریت (1)

پاکستان میں آمریت چار مفصل ادوار پر مشتمل ہے۔ جمہوریت پر پہلا شب خون 1958 جنرل محمد ایوب خاں نے مارا۔ پہلے مارشل لاء انیس سو اٹھاون سے لیکر انیس سو انہتر تک قائم رہا۔ دوسرا مارشل لاء جنرل محمد یحیٰ خان نے انیس سو انہتر کو لگایا جو انیس کو اکہتر تک بزور طاقت چلتا رہا۔ تیسرے مارش لاء کا دور جنرل محمد ضیاء الحق سے شروع ہوتا ہے۔ اس آمرانہ دور حکومت کا دورانیہ 1977 تا 1988 رہا۔

چوتھا اور آخری مارشل لاء 1999 سے لیکر 2008 تک جنرل پرویز مشرف نے لگایا۔ پاکستان کی 76 سالہ عمر میں آمریت کا دور قریبا 35 سال پر محیط رہا۔ ان چاروں ادوار کا آغاز اور سبب پاکستانی فوج کی سول حکومتوں میں مداخلت، سیاستدانوں کی کرپشن، ان کی شاہانہ زندگی اور وراثتی جمہوریت اور احتساب کی کمی تھی۔ ان آمروں نے ساری ریاستی مشینری کو اپنے اشاروں اور یکتا فیصلوں سے چلایا۔ ان فیصلوں کی زد میں جہاں سیاستدان آئے وہاں عدلیہ اور سول سوسائٹی بھی متاثر ہوتی رہی۔

پاکستان میں آمریت کے آغاز اور عروج کے پیچیدہ مسائل میں کئی اہم عوامل کارفرما رہے۔ ان عوامل میں کمزور جمہوری ادارے، سیاسی قیادت میں مفاہمت کی کمی، سیاسی عدم استحکام، عسکری اثر و رسوخ، بد عنوانی اور نا اہلی، علاقائی اور نسلی عصبیت، خارجہ محاذ کے معاملات میں بیرونی مداخلت، مذہبی ہم آہنگی کا فقدان، فرقہ واریت، انتہا پسندی کا رجحان اور اقتصادی عدم مساوات وغیرہ شامل ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی حکومت نے پاکستان کو ایک غیر یقینی جمہوری نظام کے ساتھ چھوڑا تھا۔

نوزائیدہ ریاست میں کوئی طےشدہ نظام حکومت موجود تھا اور نہ ہی سیاسی قیادت میں کوئی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ کمزور اداروں، غیر مستحکم سیاست اور انتظامیہ میں متواتر تبدیلیوں سے اقتدار کا خلا پیدا ہوا۔ اپنے قیام کے بعد سے اب تک پاکستان کی فوج بطور ادارہ انتہائی مضبوط اور نظم و ضبط کی اعلیٰ مثال رہی ہے۔ باقاعدہ فوجی مداخلتوں نے سویلین حکومتوں کو کمزور کیا۔ عوام کے جمہوری عمل پر اعتماد کو وسیع بدعنوانی اور غیر موثر طرز حکمرانی سے نقصان پہنچا۔ اس کے نتیجے میں عوام کا منتخب عہدیداروں اور قیادت پر اعتماد ختم ہوا۔

سیاسی عدم استحکام اور ایک مربوط قومی شناخت کی تشکیل میں رکاوٹ علاقائی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کی وجہ سے تھی۔ بیرونی طاقتوں نے پاکستان میں فوجی آمریتوں کو زیادہ قابل اعتماد اتحادی جانا۔ غیر ملکی طاقتیں، جو اکثر سرد جنگ کے تناؤ کی وجہ سے حوصلہ افزائی کرتی ہیں، نے فوج کی کئی مواقعوں پر حمایت کی۔ فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی انتہا پسندی کے فروغ نے جمہوری اقدار کو خطرے میں ڈالا اور سیاسی نظام کو ہلا کر رکھ دیا جس کے سبب جمہوری حکومتیں کمزور ہوتی گئیں اور ریاست کی رٹ ایک مذاق بن گیا۔ بعض اوقات جمہوری نظریات کی قیمت پر، اقتصادی تفاوت اور سماجی نقل و حرکت کی کمی نے عدم اطمینان اور تبدیلی کی خواہش کو ہوا دی۔

پاکستانی آمریت نے ملکی اور جمہوری اداروں کا کافی حد تک نقصان کیا۔ ان اداروں کے نقصان کا ازالہ اور مضبوطی آج بھی ایک مسئلہ ہے۔ ان میں چند اہم کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ انتخابی ہیرا پھیری اور دھاندلی، اختلاف رائے کو دبانے اور آزاد میڈیا کی عدم موجودگی سے جمہوری حقوق کے آزادانہ استعمال میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ آمریتوں کے تحت پریس، عدلیہ، اور انتخابی اداروں اکثر اپنی آزادی کھو بیٹھے۔ چیک اینڈ بیلنس تلاش کرنے کے بجائے ان کا مقصد عوامی رائے کو کنٹرول کرنا تھا۔ مختلف سیاسی اور غیر سیاسی تنظیمیں ریاست کا آلہ کار بنی رہی۔ یہ تنظیمیں عام عوام کی بجائے حکمران طبقے کے ایجنڈوں کو آگے بڑھاتی رہی۔ فیصلوں اور تقرریوں کی بنیاد میرٹ کی بجائے وفاداری کی بنیاد پر ہوتی رہی۔

بدعنوانی کا ادارہ جاتی کلچر، نگرانی اور احتساب کی کمی کی وجہ سے فروغ پاتا ہے۔ پاکستانی ریاست اس کی ایک واضح مثال ہے۔ بد عنوانی کا یہ کلچر پچھلے کئی برسوں سے پروان چڑھ رہا ہے۔ فیصلے اور وسائل حکومت اور اس کے اتحادیوں کے حق میں تعصب بھی اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔ ریاستی ثقافتی اور تعلیمی اداروں پر حکومت کے سیاسی نظریات کو اپنانے کے لیے دباؤ آج بھی موجود ہے۔

آزادی اظہار اور تنقیدی سوچ کو ہمیشہ سے دبایا جاتا رہا ہے۔ پاکستان میں عارضی استحکام ایک ایسا شارٹ کٹ ہے جس کو ہر بار لاگو کیا جاتا ہے۔ ایک آمرانہ نظام حکومت ہی انتہائی غیر مستحکم حالات میں عارضی نظم قائم کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ تجربہ بار بار ہوا جس سے آج تک ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی واضح نہیں ہوسکی۔ آمرانہ طرز حکومت عوام کو تحفظ کا احساس فراہم کرتی ہے کہ عوامی مسائل اب حل ہونے کے بہت قریب ہیں۔ طویل مدتی استحکام پاکستانی عوام کے لئے ایک خواب ہی رہا ہے۔ اب یہ وہم ہی لگتا ہے۔

انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ جمہوری حکومتوں کی طرح آمریت میں بھی بہت زیادہ پروان چڑھتا ہے۔ حکومتی وزیر مشیر کچھ خود مختار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر توجہ مرکوز کیے رکھتے ہیں۔ اس سے عارضی طور پر معیشت کو متحرک کیا جاسکتا ہے یا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ترقی ہو رہی ہے۔ تاہم آزادیوں اور ادارے کی طویل مدتی عملداری پر اس کارکردگی سے اکثر شدید سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ جمہوریت میں تبدیلی کے بعد بھی آمریت کی وراثت برقرار ہے۔ جمہوری اصولوں کے مطابق اداروں کی تشکیل نو کے لیے وقت اور محنت درکار ہے۔

پاکستان، 1947 میں ہندوستان کی پرتشدد تقسیم سے پیدا ہونے والا ملک، اپنی پوری تاریخ میں کئی انقلابات کا سامنا کر چکا ہے، جن میں جمہوریت اور آمریت کے بار بار ادوار بھی شامل ہیں۔ جمہوری مستقبل کے بارے میں محمد علی جناح کے وژن نے نوجوان قوم کی امیدوں کو آگے بڑھایا لیکن وہ جلد ہی مدھم پڑ گئیں کیونکہ اقتدار کی جدوجہد اور سماجی مسائل کی وجہ سے آمرانہ شخصیات نے کنٹرول حاصل کر لیا۔ اپنی تاریخ کے دوران پاکستان نے ایسے طویل ادوار کا تجربہ کیا ہے جس میں فوجی جرنیلوں اور سیاسی طور پر بااثر افراد کی وجہ سے جمہوری عمل میں رکاوٹیں آئیں۔

جاری ہے۔۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin