Pak Turk Taluqat
پاک ترک تعلقات

پاکستان اور ترکیہ کے مابین سفارتی تعلقات اور دفاعی تعلقات پردونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی تاریخ، سفارتی سطح پر باہمی تعاون اور دفاعی شعبے میں اشتراک کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد اسلام، عوام، مشترکہ تاریخی ورثے اور باہمی مفادات پر مبنی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کا آغاز پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں مزید مضبوط ہوا ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعلقات کی تاریخ برصغیر کی تقسیم سے بھی پہلے کی ہے۔ عثمانی خلافت کے دور میں برصغیر کے مسلمان ترکیہ کو اسلامی دنیا کی قیادت کے طور پر دیکھتے تھے۔ قیادت کے اس جذبے کا اظہار 1920 کی دہائی میں تحریکِ خلافت کی صورت میں ہوا۔ خلافت کی تحریک کا سب سے اولین اور بنیادی مقصد عثمانی خلافت کو ختم ہونے سے بچانا تھا۔ اس تحریک کے دوران برصغیر کے مسلمانوں نے ترکیہ کی حمایت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ تاریخی تعلقات 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد باقاعدہ سفارتی تعلقات میں ڈھل گئے۔ ترکیہ نے پاکستان کو بہت جلد تسلیم کر لیا اور دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔
پاکستان اور ترکیہ عالمی اور علاقائی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کے حامی رہے ہیں۔ خاص کر مسئلہ کشمیر پر ترکیہ نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر کشمیر میں بھارتی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ آج بھی ترکیہ کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر شامل ہے۔ اسی طرح ترکیہ کے داخلی مسائل میں خاص کر کرد علیحدگی پسندی اور قبرص کے مسئلے پرپاکستان نے ترکیہ کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس تعاون سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید استحکام پیدا ہوا ہے۔
دفاعی تعلقات پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کا ایک اہم اور مضبوط ستون ہیں۔ دونوں ممالک نے اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے دفاعی تعلقات کی بنیاد 1950 کی دہائی میں رکھی گئی تھی اور آج یہ تعلقات کئی شعبوں تک پھیل چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف دفاعی معاہدے ہوئے ہیں جن کے تحت فوجی تربیت، جنگی مشقیں اور ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہوا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان نے ترکیہ کے ساتھ ایک دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا جس کے تحت دونوں ممالک نے دفاعی مصنوعات کی تیاری اور فوجی ٹیکنالوجی میں اشتراک پر زور دیا۔ پاکستان اور ترکیہ نے دفاعی صنعت میں بھی تعاون کیا ہےجس میں جنگی طیارے، ٹینک، میزائل اور ڈرون وغیرہ شامل ہیں۔
پاک اور ترک بحریہ کے درمیان تعلقات بھی بہت مضبوط ہیں۔ دونوں ممالک کی بحریہ نے مختلف جنگی مشقیں کی ہیں اور سمندری سیکیورٹی کے پروجیکٹ کے تحت پاکستان نے ترکیہ سے جدید جنگی بحری جہاز حاصل کیے ہیں۔ یہ بحری جہاز پاکستان کی سمندری حدود کی حفاظت اور بحریہ کی طاقت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان جہازوں کی مدد سے پاکستان نے بحریہ کی دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنایا ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کی افواج نے متعدد بار مشترکہ جنگی مشقیں کی ہیں۔ ان میں اتاترک مشقیں، ٹروا مشقیں اور فخر پاکستان مشقیں شامل ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیت کو بہتر بنانا اور دہشت گردی کے خلاف مل کر کام کرنے کے لیے تیاری کرنا ہے۔ 'اتاترک 11' اور 'جناح ایکسرسائز' جیسے ناموں سے ہونے والی یہ مشقیں دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ نے دفاعی صنعت میں بھی متعدد مشترکہ منصوبوں پر کام کیا ہے۔ ان منصوبوں کا مقصد دفاعی خود انحصاری کو بڑھانا اور جدید دفاعی ٹیکنالوجی میں تعاون کرنا ہے۔ ترکیہ نے پاکستان کو ٹی-129-اٹیک ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیے ہیں۔ ترکیہ نے پاکستان کو یہ ہیلی کاپٹر جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹر خاص کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موثر ثابت ہوتے ہیں اور پاکستان نے ترکیہ سے ان ہیلی کاپٹروں کا معاہدہ کیا ہے تاکہ اپنی فوجی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
ترکیہ نے حالیہ برسوں میں ڈرون ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی ہے اور پاکستان نے بھی اس شعبے میں ترکیہ کے تجربے سے فائدہ اٹھایا ہے۔ دونوں ممالک نے ڈرون طیاروں اور نگرانی کے نظام میں تعاون پر زور دیا ہے تاکہ دفاعی شعبے میں جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کی جا سکے۔ ترکیہ کے بائراکتر ڈرونز عالمی سطح پر معروف ہیں اور پاکستان ان کے ذریعے اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ مزید ترکیہ نے اپنا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ بھی متعارف کروادیا ہے۔ دفاعی شعبے میں تعاون نے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو بھی فروغ دیا ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دفاعی صنعت میں مشترکہ منصوبے اور مصنوعات کی تیاری نے دونوں ممالک کی معیشتوں کو بھی فائدہ پہنچایا ہے۔
پاکستان اور ترکیہ نے مختلف مواقع پر مشترکہ دفاعی نمائشوں کا انعقاد کیا ہے جہاں دونوں ممالک کی دفاعی صنعت کی مصنوعات کی نمائش کی جاتی ہے۔ دفاعی نمائش میں ترکیہ نے ہمیشہ بھرپور شرکت کی ہے، جس سے دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ نے دفاعی مصنوعات کی برآمد میں بھی تعاون کیا ہے۔ ترکیہ نے پاکستان کو مختلف دفاعی مصنوعات فراہم کی ہیں، جیسے کہ ہتھیار، نگرانی کے نظام اور دیگر دفاعی ساز و سامان۔ اس تعاون نے دونوں ممالک کی دفاعی صنعتوں کو مزید ترقی دی ہے اور عالمی سطح پر ان کی مصنوعات کو تسلیم کرایا ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعلقات میں مزید وسعت کی گنجائش موجود ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور نئی ٹیکنالوجی میں اشتراک کے مواقع موجود ہیں۔ جدید جنگی ہتھیاروں اور تکنیکی مہارت کے ذریعے دونوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیت میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات میں تکنیکی تعلیم اور تربیت کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ترک فوجی ماہرین کی مدد سے پاکستانی فوج کو جدید ترین دفاعی تکنیک اور حربے سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی تعاون کر رہے ہیں اور یہ تعاون مستقبل میں مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان دونوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسائل کا سامنا ہے اور اس لیے ان مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سائبر حملے آج کے دور میں ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں اور دونوں ممالک اپنی سائبر دفاعی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات کر سکتے ہیں۔ سائبر ٹیکنالوجی میں اشتراک سے دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے مابین سفارتی اور دفاعی تعلقات نے خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دونوں ممالک کا تعلق تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر قائم ہے اور ان کے تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مزید مستحکم ہوتے جا رہے ہیں۔ دفاعی شعبے میں دونوں ممالک کے تعلقات نے نہ صرف خطے کی سلامتی کو بہتر بنایا ہے بلکہ اقتصادی تعلقات میں بھی بہتری آئی ہے۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعلقات کا مستقبل روشن ہے اور یہ تعلقات خطے میں امن و استحکام کے فروغ اور باہمی دفاعی تعاون کے ذریعے مزید مستحکم ہو سکتے ہیں۔