Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sami Ullah Rafiq/
  4. Pak Iran Kasheedgi

Pak Iran Kasheedgi

ایران پاکستان کشیدگی

ایران پاکستان کا برادر ہمسایہ ملک ہے۔ پاکستان نے 1947 کو برطانوی راج سے آزادی حاصل کی جبکہ ایران کو بھی ایسا کرنا نہیں پڑا۔ پاکستان میں مسلم اکثریت پائی جاتی ہے اور ایران میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہماری اقلیتوں میں سکھ، ہندو، عیسائی وغیرہ شامل ہیں جبکہ ایران میں یہودی زیادہ تعداد میں بطور اقلیت موجود ہیں۔ ایران میں پہلے بادشاہت تھی اور اب مذہبی انقلاب کے بعد اسلامی شیعت رجیم ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہے۔ ادھر پاکستان میں جمہوریت اور آمریت نے باری باری ملک کو چلایا۔ ایران میں شعیہ مسلک کا غلبہ اور سنی مسلک اقلیت میں موجود ہے جبکہ پاکستان میں سنی، سلفی، مالکی اور شیعہ مسلک پائے جاتے ہیں۔ پاکستان سے ہر سال ہزاروں زائرین ایران اور عراق کا رخ کرتے ہیں۔ یہ زائرین پابندیوں میں جکڑی ہوئی ایرانی معیشت کو ایک سہارا بھی دیتے ہیں۔

اسی ہفتے کے آغاز میں ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے کوہ سبز میں میزائل داغے گئے جس کے نتیجے میں دو بچے ہلاک اور کچھ زخمی ہوگئے۔ ان ایرانی میزائل حملوں کا مقصد جیش العدل کے ان دہشت گرد فائٹرز کو ہلاک کرنا تھا جو ایران پاکستان کے سرحدی علاقے سیستان میں دہشت گرد کاروائیاں کرتے تھے۔ یہ ایرانی حملوں کا وہ جواز تھا جو ہمیں خبروں سے پتہ چلتا ہے۔ حملوں سے پہلے اور فوری بعد ایران کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ یہ خبر اس وقت وائرل ہوئی جب انٹرنیشنل میڈیا نے اس خبر کو چلانا شروع کیا۔ خبر کا وائرل ہونا تھا کہ ایرانی میڈیا نے اس خبر کو چلانا بند کیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

"جیش العدل" (انصاف کی فوج) پاکستان کے صوبے بلوچستان اور جنوب مشرقی ایران تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ سنی عسکریت پسند گروہ جو پر تشدد کاروائیاں کرتاہے۔ یہ گروہ ایرانی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے اور خودکش بم دھماکے کرنے میں ملوث ہے۔ اس کا ایک اعلانیہ مشن ہے کہ ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان کو کاٹ کر ایک آزاد بلوچستان کا قیام ہے۔ یہ ایران میں کرد علیحدگی پسندوں کے ساتھ تعاون کرتے اور پورے مشرق وسطیٰ میں سنی تنظیموں کے درمیان حامی تلاش کرتے ہیں۔ ان کی حرکتیں دونوں طرف کشیدگی کو بھڑکاتی ہیں۔ تہران اور اسلام آباد نے انہیں دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اگر ایران کو اس گروہ سے شکایات اور مسائل ہیں تو پاکستان کو بھی ایران سے شکایات ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ ایرانی سرحد ہے جہاں کلبھوشن یادیو پاکستان میں کاروائیاں کراتا رہا۔ اس کے علاوہ جنرل قاسم سلیمانی بھی تھا جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے کھلے عام دھمکیاں دیتا رہا۔

پاکستان نے ان میزائل حملوں کے جواب میں شدید الفاظ میں مذمت کی جیسا کہ ہماری سفارتی روایت ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی جو لہر دو دہائیوں پہلے شروع ہوئی تھی ہماری حکومتوں اور ریاستی اداروں نے زیادہ تر شدید الفاظ میں مذمت ہی کی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ایران سے احتجاج کے طور پر اپنا سفیر واپس بلا لیا اور ایرانی سفیر کو بھی پاکستان واپس آنے سے روک دیا۔ یہ ایرانی حملوں کے جواب میں ہمارا دوسرا ریسپونس تھا۔ پاکستان نے ان ایرانی حملوں کو سفارتی، اسلامی برادر ملکوں اور دو طرفہ تعلقات کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کہا ہے۔ نیز پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی خلاف وزی کا علیحدہ احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران نے ایسا کیوں کیا۔ ایران نے ان حملوں سے پہلے پاکستان کو آگاہ کیوں نہیں کیا۔ ان حملوں سے پہلے ایران کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ پاکستانی حکام سے مشاورت کرتا یا دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع کو کنفرم کرتا لیکن ایران نے بطور ایک اسلامی ہمسایہ ملک اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ اس غیر ذمہ دارانہ اور انتہائی غیر سنجیدہ حرکت پر پاکستان کی جانب سے احتجاج بنتا تھا۔ پاکستان نے ایران انقلابی رجیم کو ان حملوں کے نتائج بھگتنے کی بھی ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ مستقبل قریب میں اگر ان حملوں کے جواب میں پاکستان کوئی عسکری قدم اٹھاتا ہے تو ایرانی رجیم ہی اس کی ذمہ دار ہوگی۔

دوسرا سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کا جواب ٹھیک تھا؟ کیا یہ جواب بالکل اتنا ہی وزن رکھتا ہے جتنا ایران نے خلاف ورزی کی؟ کیا پاکستان کو ایرانی حملوں کے جواب میں میزائلوں سے جواب نہیں دینا چاہیےتھا؟ کیا پاکستان نے سفارتی سطح پر احتجاج ریکارڈ کروا کر بات کو ختم کردیا ہے؟ جب یہ معاملات ٹھنڈے پڑ جائیں گے تو پاکستان اور ایران دونوں سفارتی تعلقات کو دوبارہ بحال کرلیں گے اور معاملات معمول پر آجائیں گے۔ فی الحال تو ایسا ہی نظر آ رہا ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران نے پاکستان کی زمینی اور فصائی حدود کی خلاف ورزی صرف اسی ہفتے نہیں کی بلکہ ماضی میں بھی ایران نے ایسا کئی بار کیا ہے۔

ایرانی سکیورٹی فورسز نے ماضی میں متعدد بار پا کستانی سرحدی علاقوں میں گھس کر کاروائیاں کی۔ ان کاروائیوں میں ڈرون اٹیکس اور میزائل حملے بھی شامل ہیں۔ لیکن پاکستان نے کبھی بھی جواب میں ایرانی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ ایرانی اعلیٰ حکام کو باقاعدہ اطلاع کی اور مناسب کاروائی کرنے کا کہا۔ ڈپلومیٹک لیول پر پاکستان نے ایران کی جانب سے کی جانے والی خلاف ورزی پر شدید الفاظ میں مذمت کی۔ نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے فورم سے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اور ایران کو بار بار وارن بھی کیا کہ ان حملوں کو روکا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اتھارٹیز نے ایرانی ہم منصب کو فارن آفس بلواکر بھی احتجاجی مراسلہ تھمایا اور اس بابت وضاحتی جواب بھی طلب کیا۔ یہ سفارتی سطح پر سب سے زیادہ غصہ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

ایک ذمہ دار ریاستی ادارے کے ناطے پاکستانی فوج نے بھی پاک ایران سرحد پر ہونے والی خلاف ورزیوں پر مزید فوجی تعینات کیے اور سرحدی نگرانی بھی تیز کی تاکہ دہشت گرد وں کی نقل و حرکت اور ان کی کاروائیوں کو روکا جاسکے۔ اعلیٰ عسکری حکام کی جانب سے ایرانی حکام سے خفیہ معلومات کے تبادلے بھی کیے جس سے ایران کو مطلوب افراد پکڑنے اور ان کے خلاف کاروائیاں کرنے میں آسانی ہوئی۔ ایران کی اطلاع پر بھی پاکستانی عسکری حکام کی طرف سے ایران کو مطلوب دہشت گرد کو بھی پاکستانی حدود کے اندر مختلف فوجی آپریشنز کے ذریعے ہلاک کیا۔

حرف آخر یہ کہ پاکستان کی طرف سے ہمیشہ ایرانی ریزرویشنز کو اچھی طرح کلئیر کیا گیا لیکن اس بار ایران نے ایک ریاست کے طور پر قدم نہیں اٹھایا بلکہ اپنے آپ کو ایک نجی ملیشیا کے طور پر پیش کیا۔ ایران کا پاکستان پر حملہ ایرانی نجی ملیشیا کی پسپائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایرانی مسلکی رجیم نے پورے خطے کو جنگ زدہ کیا ہوا ہے جس سے دیر پا امن کو خطرات لاحق ہیں۔ شام، عراق، آذربائیجان کے بعد اب پاکستان بھی ایرانی ملیشیا کی طرف سے کاروائیوں کا شکار ہے۔ ایران کو پاکستان کی خطے میں اہمیت اور فوجی ڈیٹرنس کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیئے کہ پاکستان کا ایران کو سخت جواب نہ دینا کمزوری نہیں بلکہ امن کو ترجیح دینا ہے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal