Pak Bharat Taqat Ka Tawazun
پاک بھارت طاقت کا توازن

پاکستان اور بھارت کی دفاعی صلاحیتیں جنوبی ایشیا میں طاقت کے نازک توازن کی علامت ہیں۔ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے یہ خطہ دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ بھارت کے پاس دنیا کی چوتھی بڑی فوج ہے جس میں تقریباً 14 لاکھ فعال فوجی شامل ہیں۔ اس کے پاس جدید جنگی طیارے (رافیل، سوخوئی، تیجاز)، جدید میزائل سسٹم (اگنی، پرتھوی) اور ایئرکرافٹ کیریئر جیسے نیول اثاثے موجود ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کی فوج تعداد میں کم (تقریباً 6 لاکھ فعال اہلکار) ہونے کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ مہارت، دفاعی حکمتِ عملی اور خصوصی فورسز کی مہارت کی بدولت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے پاس جدید جنگی طیارے (جے ایف-17 تھنڈر، ایف-16 اور جے 10-سی)، بابر، ابدالی اور شاہین جیسے بیلسٹک و کروز میزائل اور اسٹریٹیجک فورسز کمانڈ جیسی تنظیمیں موجود ہیں۔
دونوں ممالک نے 1998 میں ایٹمی تجربات کیے جس کے بعد خطے میں ایٹمی جنگ کا خطرہ شامل ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی ڈیٹرنس کی کیفیت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ ایک طرف پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتیوں کی خاطر چین، ترکیے اور دیگر اتحادی ممالک سے دفاعی ضروریات پوری کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت زیادہ تر روسی ساختہ ہتھیاروں پر انحصار کرتا ہے۔ سازوسامان کے لحاظ سے دونوں ممالک نے میزائل شیلڈز، نیول فورسز اور سائبر وارفیئر جیسے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری شروع کر رکھی ہے جس سے ان کی جنگی صلاحیتیں مزید پیچیدہ اور خطرناک ہوگئی ہیں۔
ایٹمی اثاثوں کے لحاظ سے پاکستان کے پاس تقریباً 160-170 وارہیڈز ہیں جبکہ بھارت کے پاس 160-180 وارہیڈز کا تخمینہ ہے۔ بھارت کے پاس زمین، فضا اور سمندر سے حملہ کرنے کی سہولت موجود ہے جبکہ پاکستان نے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں پر زیادہ زور دیا ہے تاکہ بھارت کی روایتی برتری کا توڑ کیا جا سکے۔ دفاعی بجٹ کے اعتبار سے بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ تقریباً 75-80 ارب ڈالر ہے، جو اسے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دفاعی خرچ کرنے والا ملک بناتا ہےجبکہ پاکستان کا بجٹ 7-8 ارب ڈالر کے قریب ہے۔
ان ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال اور اثرات کا جائزہ لیں تو تصویر انتہائی خوفناک بن جاتی ہے۔ روایتی جنگ میں انسانی جانوں کا بڑا نقصان، شہروں کی تباہی اور معیشت پر شدید دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ بیلسٹک اور کروز میزائل دشمن کی فوجی تنصیبات اور شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ایٹمی وارہیڈ استعمال ہو جائیں تو لاکھوں افراد کی ہلاکت اور طویل مدتی ماحولیاتی تباہی یقینی ہے۔ نیوی اور ایٹمی آبدوزیں سمندر میں طاقت کا مظاہرہ اور زیرِ آب ایٹمی حملے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں جبکہ سائبر وارفیئر کے ذریعے معیشت، مواصلات اور دفاعی نظام کو مفلوج کیا جا سکتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان عسکری تصادم اور جنگیں، نہ صرف خطے کی سیاسی اور سٹریٹیجک صورتحال کو متاثر کرتی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ان تعلقات میں متعدد اہم تاریخی واقعات نے دونوں ممالک کی دفاعی حکمت عملی، طاقت کے توازن اور خطے کی سیکورٹی کو نئی جہتیں دی ہیں۔
تقسیمِ ہند کے فوراً بعد کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی جڑ بن گیا۔ پاکستان کی جانب سے قبائلی رضا کاروں نے کشمیر میں داخل ہو کر بھارتی فوج کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ اس جنگ کے نتیجے میں کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے قبضے میں آیا (آزاد کشمیر) جبکہ باقی حصہ بھارت کے غاصبانہ قبضے میں چلا گیا۔ یہ پہلا بڑا عسکری تصادم تھا جس نے دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کی بنیاد رکھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔
1965 میں پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کے تحت کشمیر میں بھارتی قبضے کو چیلنج کیا جس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی۔ دونوں طرف سے بڑے زمینی اور فضائی حملے کیے گئے۔ اس جنگ کا اختتام سوویت یونین کی ثالثی میں تاشقند معاہدہ پر ہوا۔ جنگ بندی تو ہوئی لیکن کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔ اس جنگ نے دونوں ممالک کی دفاعی حکمتِ عملی میں گہرے اثرات چھوڑے اور دونوں ممالک نے اپنی فوجی تیاریوں کو مزید مضبوط بنایا۔
1971 کی جنگ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی جنگ تھی جس نے پاکستان کا جغرافیائی نقشہ بدل دیا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی علیحدگی پسندوں کے ساتھ بھارت کی فوجی مداخلت نے پاکستان کے مشرقی حصے (مشرقی پاکستان) کو آزاد کروا لیا جس سے بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ اس جنگ کے بعد پاکستان نے اپنی دفاعی حکمتِ عملی اور ایٹمی پروگرام پر زور دینا شروع کیا تاکہ آئندہ کسی بھی بیرونی مداخلت کا موثر جواب دے سکے۔
پاکستان اور بھارت نے 1998 میں ایٹمی تجربات کرکے خود کو ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کیا۔ بھارت نے مئی میں پوکھران میں پانچ ایٹمی تجربات کیے جس کے جواب میں پاکستان نے چاغی میں چھ ایٹمی تجربات کیے۔ اس کے بعد دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن گئے۔ خطے میں طاقت کا توازن اور دفاعی حکمتِ عملی نئی شکل اختیار کر گئے۔ ان تجربات نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کو ایٹمی جنگ کے ممکنہ خطرے سے آگاہ کر دیا۔
پاکستانی فوج نے 1999 میں کارگل سیکٹر میں بھارتی حدود میں داخل ہو کر بلند چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ بھارتی فوج نے شدید جوابی کارروائی کی اور کئی ہفتوں کی لڑائی کے بعد ان چوکیوں کو واپس حاصل کر لیا۔ اس جنگ نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کیا اور جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ کے خطرات کو بڑھا دیا۔ اگرچہ اس وقت دونوں ممالک نے کم شدت کی جنگ لڑنے کی کوشش کی لیکن یہ واقعہ اس بات کا غماز تھا کہ ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان کشیدگی کسی بھی وقت بڑی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
نومبر 2008 میں بھارتی علیحدگی پسندوں نے ممبئی میں دہشت گردانہ حملے کیے جن میں 170 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے نے بھارت کو شدید مشتعل کیا اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ بھارت نے پاکستان پر ہمیشہ کی طرح دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کیا اور اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا۔ ممبئی حملے نے یہ ظاہر کیا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا سٹریٹیجک خطرہ بن چکی ہیں۔
فروری 2019 میں پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی قافلے پر حملہ ہوا۔ بھارت نے اس حملے کو بھی پاکستان پر تھوپ دیا۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ بھارتی حکومت نے یہ حملہ اس لیے کروایا کہ اگلے الیکشن میں عوامی حمایت حاصل کی جاسکے۔ اس حملے کے جواب میں بھارت نے پاکستان کے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا۔ پاکستان نے اپنی داخلی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے جوابی فضائی کارروائی کی۔ دونوں ممالک کے جنگی طیارے آمنے سامنے آئے اور بھارتی پائلٹ پاکستان سے گرفتار ہوا۔ اس واقع کو آپریشن سوفٹ ریٹارٹ کے نام سے یاد کیا جات اہے۔ عالمی دباؤ کے نتیجے میں دونوں ممالک نے کھلی جنگ سے گریز کیا۔
ان تمام تاریخی واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتیں اور عسکری حکمتِ عملیاں نہ صرف طاقت کا مظاہرہ ہیں بلکہ ان میں خطے کے لیے خطرات بھی مضمر ہیں۔ ایٹمی طاقت اور جدید ہتھیاروں کے باوجود دونوں ممالک نے اب تک کھلی ایٹمی جنگ سے گریز کیا ہے۔ مستقبل میں غلط فیصلے، حادثات یا غلط فہمیاں کسی بھی وقت بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنی دفاعی حکمتِ عملی کو مزید محتاط اور متوازن بنائیں تاکہ مستقبل میں کسی غیر متوقع صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ امن، سفارت کاری اور سمجھ داری ہی اس خطے کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں، کیونکہ ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، صرف نقصان اور تباہی ہوتی ہے۔

