Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Oppenheimer

Oppenheimer

اوپن ہیمر

"اوپن ہیمر" ہالی ووڈ کی ایک بائیگرافیکل تھرلر بیسڈ فلم ہے جو ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ یہ شخصیت ایک امریکی سائنسدان تھے۔ سیلین مرفی، جو اوپن ہیمر کا مین کردار نبھا رہے ہیں، 22 سال کی عمر میں دوران حصول علم ہوم سکنیس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعد ازاں یہی کردار پھر تحقیقی کام کی قیادت کرتے ہوئے یو ایس ملٹری کو ایٹم بم بنا کر دیتے ہیں جو بعد ازاں جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر بذریعہ جہاز گرایا جاتا ہے جس سے جاپان مکمل تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ فلم امریکی مصنف کرسٹوفر نولان نے لکھی ہے۔

جولیس رابرٹ اوپن ہیمر ایک معروف امریکی نظریاتی ماہر طبعیات تھے۔ 22 اپریل 1904 کو نیویارک شہر کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار ان چند شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ایٹم بم بنایا تھا۔ بعد ازاں وہ بم جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے۔ پھر انسانوں نے انسانوں کی وہ تباہ کاریاں دیکھیں جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے مشہور ہونے کی دوسری وجہ "مین ہیٹن پراجیکٹ" ہے۔ یہ ایک انتہائی خفیہ امریکی پراجیکٹ تھا جو ایٹم بم کی تحقیق اور بم کی تکمیل کے متعلق تھا۔

اس کو دوسری جنگ عظیم کے دوران عمل میں لایا گیا۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل کا واحد مقصد نازی جرمنی اور جاپان کے خلاف استعمال کرنا اور پوری دنیا پر اپنی دھاک بٹھانا تھا۔ اوپن ہیمر چونکہ اس پراجیکٹ کو لیڈ کر رہے تھے لہٰذا دنیا کے ٹاپ سائنسدانوں نے مل کر نیوکلیئر فژن کو ملٹری مقاصد کیلئے استعمال کرنا تھا۔ 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو میں ایک کامیاب تجربہ "ٹرینٹی" ہوا جس نے انسانی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔ اس ایجاد نے آنے والی تمام جنگوں کی نوعیت بھی تبدیل کر دی۔ انسانوں کے دوبدو لڑنے سے لیکر ایک بٹن دبانے تک جنگیں سمٹ کر رہ گئی۔

اوپن ہیمر کے والد جولیس اوپن ہیمر ایک جرمن مہاجر تھے جو بعد میں ایک کامیاب ٹیکسٹائل امپورٹر بن گئے۔ امریکی نیوکلیئر سائنس دان نے ابتدائی تعلیم ستمبر 1911 کو ایتھیکل سوسائٹی سکول سے حاصل کی۔ 1921 میں ہارورڈ کالج سے زبان و ادب اور سائنس میں مزید تعلیم حاصل کی۔ 1927 تک یونیورسٹی آف گوٹینگن جرمنی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرلی۔ وہاں ان کے اساتذہ میں میکس بارن اور ورنر ہیسن برگ رہے جن کی شاگردی میں انہوں نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔

ڈاکٹر آف فزکس بننے کے بعد وہ واپس امریکہ آئے اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، بارکلے اور کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں درس و تدریس کا آغاز کر دیا۔ کوانٹم مکینکس، آسٹر فزکس، اور سپیکٹرو سکوپی میں گراں قدر خدمات انجام دیں جس سے ان کی شہرت ایک نظریاتی ماہر طبعیات کے طور پر دنیا کے سامنے آئی۔ ان کے تحقیقی خدمات نے کوانٹم ٹنلنگ، کوانٹم تھیوری آف مالیکیولر اور سالڈ سٹیٹ سٹرکچر کو آنے والی تحقیق کیلئے ایک بنیاد فراہم کیں۔

جیسے ہی جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی تو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مین ہیٹن پراجیکٹ کا ڈائریکٹر لگا دیا۔ کیونکہ امریکہ خود بھی اس جنگ میں کود پڑا تھا اور جاپان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو رہا تھا۔ ایک طرف جرمنی نے پورے یورپ میں اپنا ڈر قائم کیا ہوا تھا تو دوسری طرف جاپانی ہار نہیں مان رہے تھے۔ اوپن ہیمر نے انتہائی باریک بینی سے ساتھی سائنسدانوں کی ایٹم بم بنانے میں مدد فراہم کی۔ ان خدمات کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ کیا اپنے جیسے انسانوں کے خلاف ایسا مہلک ہتھیار بنانا جائز ہے؟

اس کا جواب تب یہی تھا کہ عشق اور جنگ میں سب جائز ہے۔ امریکہ بہادر اپنے آپ کو دنیا کا واحد لیڈر ماننے کے لیے انتہائی سرگرم تھا۔ وہ ایک ٹرو پولیس مین کا کردار ادا کرنے کے لیے پر تول رہا تھا۔ وہ بطور ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف فار ایڈوانسڈ سٹڈیز، پرنسٹن میں 1947 سے 1966 تک اپنی خدمات پیش کرتے رہے جہاں انہوں نے کئی طبعیاتی اور ریاضیاتی نظریات پر کام کیا۔ اینریکو فیرمی، پریزیڈنشیل میڈل آف میرٹ کے ساتھ کئی ایوارڈز سے بھی نوازے گئے۔

اوپن ہیمر ایک مخلص محب وطن شہری اور عظیم سائنسدان تھے اور انکی حب الوطنی کا کھلا ثبوت ایٹم بم تھا۔ لیکن وہ کئی بار غداری کے ٹائٹل سے بال بال بچے۔ ان کے آباؤاجداد چونکہ جرمن مہاجر تھے اور اوپن ہیمر کے تعلقات ایک کمیونسٹ لڑکی سے رہے تھے لہٰذا ان کو اس وجہ سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ متعدد بار ان کے خلاف بولنے اور آواز بلند کرنے والے ان کی حب الوطنی پر شک کرتے اور ان کو روس کا ایجنٹ بھی قرار دیتے۔

انتہائی باریک بین، عقلمند اور ذہین سائنسدان ہونے کے ساتھ وہ نجی زندگی میں بہت پریشان رہے۔ وہ ایک مطمئن اور مستحکم انسان نہیں تھے۔ اپنی زندگی میں اکثر ڈپریشن، انگزائٹی اور دیگر کئی پریشانیوں سے لڑتے رہے۔ فزکس کے علاوہ زبان و ادب اور خاص طور پر شاعر ی میں نہایت دلچسپی رکھتے تھے۔ البرٹ آئن سٹائن، برٹنڈ رسل اور جوزف رٹبالٹ کے ساتھ مل کر عالمی اکیڈمی آف آرٹ اینڈ سائنس کی بنیاد رکھی۔ سب سے حیران کن بات یہ کہ وہ مشرقی فلسفے کے بڑے شوقین طالب علم تھے۔

62 سال کی عمر میں 18 فروری 1967 کو گلے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ آخری سانس تک وہ پوری دنیا میں اپنے لیکچرز دیتے رہے۔ ان کی ایجاد نے امریکہ کو اتنا طاقتور بنا دیا کہ آج کے دن تک امریکہ دنیا کا ایک تھانیدار بنا ہوا ہے۔ امریکہ کہ ہاں میں ہی امن و امان کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آج بھی امریکہ نے روس یوکرین جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ امریکی ہتھیار روسی افواج کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

اوپن ہیمر کی ایجاد ان کو عزت و توقیر میں اضافہ کرتی رہی وہاں یہ سوالات بھی اٹھتے تھے کہ اوپن ہیمر نے یہ کیسی ایجاد کی جو پلک جھپکتے ہی انسانوں کے چیتھڑے اڑا سکتی ہے۔ یہ کیسا ہتھیار ہے جس کی تباہ کاریاں نسلوں تک چلتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ موت تک ایک مطمئن زندگی نہ گزار سکے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra