Myanmar Aur Rohingya Musalman
میانمار اور روہنگیا مسلمان
میانمار(برما) جنوب مشرقی ایشیائی ملک جو بنگلہ دیش، خلیج بنگال، چین اور تھائی لینڈ سے ملحق ہے۔ وسائل کے اعتبار سے معدنیات، پٹرولیم اور گیس میں مالا مال ہے۔ یہ زمین 49 سالوں سے فوجی حکمرانی کے زیر نگیں رہی۔ نوبل امن انعام یافتہ، ریاستی کونسلر اور ینگون(رنگون)میں پیدا ہونے والی آنگ سان سوچی گذشتہ انتخابات تک میانمار کی حکمران تھیں۔ پچھلےانتخابات دھاندلی زدہ قرار پائے۔ برمی فوج نے سوچی کی فاتح سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی کو انتخابی دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرایا، تاتماڈو نے انتخابی دھاندلی پر پورے ملک میں ایک سال کی ایمرجنسی لگائی اور تمام اختیارات ملٹری چیف، من آنگ ہیلنگ کو منتقل کیے جو اب سیاہ سفید کے مالک ہیں۔
اس فوجی بغاوت پر امریکی اور دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے فوری ردعمل آیااور بغاوت کے خاتمے، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جمہوری حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیاگیا۔ بقول جوبائیڈن یہ ملکی جمہوریت میں انتقال اقتداراور قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے انتباہ بھی کیا ہے کہ اگر فوجی بحران ختم نہ ہوا تو میانمار پر دوبارہ پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی مذمت کے ساتھ فوجی بغاوت پر بھی شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ سوچی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ باہرنکلیں، اس انتہائی غیر جمہوری فعل، فوجی بغاوت کو کچل دیں۔ وہ پہلے ہی 12 سالہ نظربند ی کاٹ چکی ہیں۔
یہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو بلاواسطہ بہت نقصان پہنچائے گا۔ ملک میں ایک نئی مسلم نسل کشی جنم لے سکتی ہیں۔ پہلی بار روہنگیا مسلمان 1970 میں پہلی بار فوجی کریک ڈاؤن کا نشانہ بنےاور آج تک ہورہے ہیں۔ میانمار کے تقریبا 80 فیصد بدھ مت لوگوں کے مقابل مسلمان 4 فیصد ہیں۔ مسلمانوں نےقریب 12 ویں صدی میں برما کی روہنگیا ساحلی لائن کو تجارت کے ذریعہ آباد کیا۔ 1948 تک میانمار اانگریز کالونی رہا۔ بعداز آزادی روہنگیا مسلمان میانمار کے شہری کہلائے حالانکہ روہنگیا کے مسلمان مشرقی پاکستان سے وابستگی کے لئے پُر عزم تھے۔
بدھ مت پیروکار ویراتھو مسلمان دشمنی کے لئے بدنام ہے۔ اسنے آر ایس ایس کی طرح خالص مذہبی تنظیم، 969 موومنٹ بنائی۔ اسکا پہلا 9 نمبر گوتم بدھ کی 9 خصوصیات ہیں، جبکہ 6 بدھ مت کی خصوصیات اور آخری 9 بدھ معاشرے کی نو خصوصیات کا نمائندہ ہے جنھیں عام طور پر سنگھا کہا جاتا ہے۔ ٹائم میگزین نے ویراتھو کو بدھا کا دہشت گرد چہرہ قرار دیا۔ وہ بھکشوؤں کو مسلمانوں سے تجارت بند کرنے، سیکڑوں مسلم گھروں کو نذر آتش کرنے، ان گنت ہلاک اور ہزاروں کو بے روزگار کر وا چکا ہے۔ بی بی سی اور سی این این نے اس طرح کے غیر انسانی پروپیگنڈے اور منظم مسلم نسل کشی کے بارے میں بہت ساری رپورٹس شائع کیں۔ اقوام متحدہ نے بدھ مت انتہا پسندوں کے مظالم پر کاغذی قراردادیں منظور کیں۔ بے انتہا مظالم سے تنگ آکر 10 لاکھ مسلمان اب تک بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ پاکستان میں 4 لاکھ روہنگیا مسلمان آباد ہیں اور دوسرے مسلم و غیرمسلم ممالک نے بھی انہیں بطور مہاجرین قبول کیا ہے۔
او آئی سی نے اس سلسلے میں کوئی قابل تعریف اقدام نہیں کیے۔ اسلامی فوجی انسداد دہشت گردی اتحاد اسلام اور اس کے مفاد ات کے تحفظ کے لئے تشکیل دیا گیا تھاجس میں 34 ممالک شامل ہیں لیکن افسوس کہ اس فورم سے بھی کوئی مسلم دشمنی کے خلاف کارروائی نہیں کی۔ اس فوجی اتحاد نے حقیقی طور پر فلسطین، روہنگیا، چیچنیا، بوسنیا اور کشمیر کے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔
میانمار میں 1982 میں شہریت کا ایک قانون منظور کیا گیا تھا تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کی طرح اپنے شہری تسلیم کرنے سے انکار کرنےاور غیر ریاستی لوگ کہا جا سکے۔ نجی زندگی کے قوانین بھی مسلمانوں کی آزادی ختم کرتے ہیں۔ مسلمانوں پر برمی زمین بھی تنگ کی گئی اور مسلمانوں کو زمین کی ملکیت جیسے بہت سے شہری حقوق سے محروم کیا جاچکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کے سب سے پریشان اور ستائے ہوئے لوگ کہا ہے۔ اب صرف وہ امداد اور پناہ گزین کے روپ میں زندہ ہیں اور باقی ماندہ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سوچی نے اپنی ایک تقریر میں کہا، "میانمار حکومت کا یہ ارادہ نہیں ہے کہ وہ الزام تراشی کرے یا ذمہ داری کو ترک کرے۔ ہم انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں اور غیر قانونی تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر تمام کارروائیوں سے جو استحکام اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچاتے ہیں ان کا ازالہ انصاف کے سخت اصولوں کے مطابق کیا جائے گا۔"ظلم کی انتہا پر دلائی لامہ نے سوچی سے مسلمانوں پر مظالم روکنے کے لئے بھی زور دیا لیکن لاحاصل کیونکہ فوجی سول حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔ اوراب تو سوچی بھی فوجی بغاوت کا لقمہ بن چکی ہیں۔ مسلمانوں پر اس کی ناک کے نیچے بہت سے فوجی آپریشن ہوتے رہے لیکن وہ چپ سادھے بیٹھی رہی اور آکسفورڈ کا عطا کردہ انعام بھی گنوا چکی۔
پاکستان کی طرف سے فی الحال کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا حالانکہ قائد حزب اختلاف کے دور میں عمران خان نے متعدد ٹویٹس، میانمار میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل پر بیانات اور نسل کشی کے خاتمے کی پر زور حمایت کی۔ میانمار اور روہنگیا مسلمانوں کی موجودہ صورتحال انصاف کی پیاسی ہے۔ موجودہ حکومت کو اس بحران پر فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔ آذربائیجان کے ناگورنو کاراباخ مسئلے کی طرح ہمارے سفارتی فورمز کو متحرک ہونا چاہئے تاکہ مسلمانوں پر مظالم کو ختم کیا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کی طرز پر عوامی آگاہی مہم چلائی جائے۔ ترکی، ملائشیا اور پاکستان ایک ہو کر اس مسئلے کے حل تک کوئی لائحہ عمل بناسکتے ہیں۔ او آئی سی میں ایک ایکشن پلان متعارف کرایا جائے۔ تمام مسلم ممالک روہنگیا کے بے گھر مسلمانوں کو گھر فراہم کرنے اور باعزت شہریت دلانے کیلئے سفارتی دباؤ پیدا کرسکتے ہیں۔