Muasharti Taqseem Aur Pakistani Adab
معاشرتی تقسیم اور پاکستانی ادب

معاشرتی تقسیم کا مطلب ہے کہ معاشرے میں مختلف گروہوں کے درمیان طبقاتی، معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی فرق موجود ہو۔ اس فرق کی بنا پر لوگ مختلف سماجی حیثیتوں میں تقسیم ہوں۔ یہ تقسیم اکثر وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، غربت، امیری، طاقت اور رسائی جیسے عناصر کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معاشرتی تقسیم ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستانی ادب کے فن پاروں سے بھی عیاں ہوتا ہے۔ پاکستانی ادیبوں نے اس تقسیم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ پاکستانی ادب میں معاشرتی تقسیم کے موضوع کو تفصیل سے بیان اور اس کے نمایاں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستانی ادب میں معاشرتی تقسیم کےپس منظر کی طرف دیکھا جائے تو اس کا آغاز تقسیم ہند کے بعد ہوا۔ شروع سے ہی پاکستانی ادب میں معاشرتی مسائل، طبقاتی فرق اور غیر منصفانہ معاشرتی تقسیم کو بیان کیا گیا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ایک نئی ریاست کے طور پر پاکستان کو مختلف سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مسائل میں غربت، طبقاتی نظام اور وسائل کی عدم مساوات شامل تھے۔ ان مسائل نے پاکستانی ادب کو موضوعات فراہم کیے اور کئی مصنفین نے ان موضوعات کو اپنی تحریروں میں جگہ دی۔
اردو ادب میں یہ موضوع خاص طور پر اہم رہا ہے۔ سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد اور دیگر اعلیٰ پائے کے مصنفین نے طبقاتی نظام اور غربت کی عکاسی کی۔ اردو ادب کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی ادب میں بھی یہ موضوعات اہمیت رکھتے ہیں۔ ان زبانوں کے مصنفین نے اپنے مخصوص علاقائی اور ثقافتی تناظر میں معاشرتی تقسیم کو واضح کیا ہے۔
ویسے تو پاکستانی ادب میں معاشرتی تقسیم کے موضوعات بہت زیادہ ہیں لیکن طبقاتی فرق، جاگیردارانہ نظام، شہری اور دیہی تقسیم، اقتصادی عدم مساوات، نسوانی تقسیم اور خواتین کے حقوق وغیرہ زیادہ نمایاں ہیں۔
پاکستانی ادب میں طبقاتی فرق کا موضوع بہت نمایاں ہے۔ طبقاتی فرق کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں مختلف طبقات میں دولت، طاقت اور رسائی کا فرق پایا جاتا ہے۔ اس طبقاتی تقسیم کی وجہ سے بعض لوگ بہت زیادہ امیر ہیں جبکہ اکثریت کی زندگی غربت کی لکیر تلے ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے ادبی کاموں میں دیہی طبقے کی زندگی، غربت اور طبقاتی فرق پائے جاتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے زمین دار اور مزدور طبقے کے بیچ کی خلیج کو واضح کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی کی کہانی "گنڈاسا" میں زمین داروں اور غریب کسانوں کے بیچ طبقاتی فرق کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں غریب کسان کے استحصال اور زمین دار کے ظلم کی عکاسی کی گئی ہے۔
پاکستان میں جاگیردارانہ نظام بھی معاشرتی تقسیم کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں زمین دار طبقے کو بہت زیادہ وسائل اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں جبکہ کسان اور مزدور طبقہ اس کے زیر اثر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اس موضوع پر کئی ادیبوں نے لکھا ہے۔ بانو قدسیہ کے ناول "راجہ گدھ" میں جاگیردارانہ نظام کی خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اس میں جہاں طبقاتی نظام اور انسانی نفسیات کے پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے وہاں اس ناول میں جاگیردارانہ طرزِ زندگی کو انسانی حقوق اور مساوات کی بنیاد پر پرکھا گیا ہے۔
پاکستانی ادب میں شہری اور دیہی زندگی کا فرق بھی واضح ہے۔ دیہی علاقوں میں وسائل کی کمی، تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی اور صحت کے مسائل عام ہیں اس مقابل شہری علاقوں میں بہتر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس فرق کی وجہ سے دونوں طبقوں میں واضح تقسیم پیدا ہوتی ہےجس کا اثر ادب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اشفاق احمد کی کہانیوں میں دیہی زندگی کی سادگی اور شہری زندگی کی مشکلات کو بڑے سلیقے سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی ایک کہانی میں دیہی زندگی کے خلوص اور سادگی کو شہر کے فریب اور خود غرضی سے موازنہ کیا گیا ہے۔
پاکستانی ادب میں اقتصادی عدم مساوات بھی ایک اہم موضوع رہا ہے۔ غربت اور امیری کے فرق کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ فیض احمد فیض، منیر نیازی اور دیگر شعراء اکرام نے اپنی شاعری میں غربت، بھوک اور بے روزگاری جیسے موضوعات کو بیان کیا ہے۔ فیض احمد فیض کی نظم "سرفروشی" میں غربت، بے روزگاری اور طبقاتی کشمکش کی عکاسی کی گئی ہے۔ ان کی شاعری میں غریب طبقے کی آواز اور ان کے حقوق کی بحالی کی خواہش کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی ادب میں خواتین کی حالت زار اور ان کی جدوجہد کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ صنفی تقسیم اور خواتین کے حقوق کا موضوع پاکستانی ادب کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ عصمت چغتائی، فہمیدہ ریاض، سارا سلہری اور بانو قدسیہ نے اپنی تحریروں میں خواتین کے مسائل اور ان کی خود مختاری پر توجہ دی ہے۔ عصمت چغتائی کی کہانی "لحاف" میں عورتوں کی زندگی اور ان کی مشکلات کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ کہانی خواتین کے اندر موجود جذبات، خواہشات اور ان کے حقوق کی پامالی کو بیان کرتی ہے۔ اسکے علاوہ قدرت اللہ شہاب کے افسانے "ماں جی" میں بھی خواتین کی حالت زارپر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پاکستانی شاعری میں بھی معاشرتی تقسیم کا موضوع بھرپور انداز میں سامنے آیا ہے۔ فیض احمد فیض، حبیب جالب، احمد فراز اور دیگر شعراء نے اپنی شاعری میں طبقاتی جدوجہد، غربت اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی۔ حبیب جالب کی شاعری میں حکومتی استحصال اور غریب عوام کی حالت زار کو نمایاں کیا گیا ہے۔ پاکستانی کہانیاں بھی معاشرتی تقسیم کے موضوع پر مبنی ہیں۔ منٹو، قاسمی اور اشفاق احمد کی کہانیوں میں طبقاتی اور سماجی مسائل کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ ان کہانیوں میں انسانی نفسیات اور اس کے اثرات کو واضح کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ پاکستانی ناول نگاروں نے بھی معاشرتی تقسیم کو اپنے موضوعات میں شامل کیا ہے۔ عبداللہ حسین کا ناول "اداس نسلیں" اور بانو قدسیہ کا "راجہ گدھ" میں پاکستانی معاشرتی تقسیم کے عنصر اور مسائل شامل ہیں۔ ان ناولوں میں طبقاتی نظام، استحصال اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔
پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی ادب میں بھی معاشرتی تقسیم پر لکھا گیا ہے۔ ان زبانوں کے ادب میں خاص طور پر دیہی زندگی، جاگیردارانہ نظام اور طبقاتی فرق کو بیان کیا گیا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی اور بلھے شاہ کی شاعری میں محبت، انسانیت اور مساوات کے پیغامات شامل ہیں جو معاشرتی تقسیم کے خلاف احتجاج ہیں۔
پاکستانی ادب میں معاشرتی تقسیم کا موضوع نہ صرف معاشرتی اصلاح کا ذریعہ بنا بلکہ اس نے عوام کو طبقاتی فرق اور ناانصافی کے خلاف متحد کیا۔ وطن عزیز کے ادیبوں نے عوامی مسائل کو ادب کے ذریعے اجاگر کرکے سماجی شعور پیدا کیا۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ادب محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تحریک بھی ہے جو لوگوں کو بیدار اور بااختیار بناتی ہے۔
پاکستانی ادب آج بھی ان مسائل پر لکھ رہا ہے اور لوگوں کو ان مسائل کے حل کے لیے سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ معاشرتی تقسیم پر مبنی ادب نے پاکستانی عوام کو ان کی مشکلات اور حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کی ہے اور انہیں ایک بہتر اور مساوی معاشرے کی تشکیل کے لیے جدوجہد کرنے کا درس دیا ہے۔

