Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Moqa Aur Qismat

Moqa Aur Qismat

موقع اور قسمت

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی کی داستانیں محض اتفاقات یا آسمانی فیصلوں کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس وہ ایک گہرے فلسفے پر مبنی ہوتی ہیں۔ موقع وہ دروازہ ہے جو تبدیلی کی شکل میں آپ کے سامنے کھلتا ہے۔ جبکہ قسمت وہ بصیرت، تیاری اور جرات ہے جو آپ کو اس دروازے سے گزرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ایک عظیم رہنما کی پہچان یہی ہے کہ وہ کس طرح افراتفری میں بھی پوشیدہ مواقع کو بھانپتا ہے اور پھر اپنی مستقل مزاجی سے انہیں قسمت میں بدل دیتا ہے۔

یہ بات غلط نہیں ہوگی کہ قسمت اکثر محنت اور تیاری کی شکل میں آتی ہے، سیاست اور قیادت میں، قسمت کبھی بھی خالی ہاتھ بیٹھے انسان کو نہیں ملتی۔ یہ دراصل ان لوگوں کا انعام ہوتی ہے جو برے وقتوں میں بھی اپنے علم، مہارت اور عزم پر کام کرتے رہتے ہیں۔ جب ملک یا دنیا کسی بحران کا شکار ہوتی ہے، تو قوم کی نظریں ایسے فرد پر جاتی ہیں جو اس بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ایسے لمحات میں، لیڈر کی سالوں کی محنت اور تیاری اچانک "قسمت" بن کر سامنے آتی ہے، کیونکہ یہ موقع صرف تیار دماغ کو ملتا ہے۔

برطانیہ کے عظیم وزیراعظم ونسٹن چرچل کی زندگی اس حقیقت کا بہترین ثبوت ہے۔ ان کی مسلسل تیاری نے ایک تاریخی موقع کو ان کی قسمت بنا دیا۔ 1930 کی دہائی میں جب زیادہ تر یورپی رہنما ہٹلر کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو نظرانداز کر رہے تھے اور "امن پسندی" کی پالیسی اپنا رہے تھے وہاں چرچل تنہا خطرے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ وہ پارلیمنٹ میں اپنے کٹر مؤقف اور سخت بیانات کی وجہ سے حکومت سے باہر تھے اور کئی لوگ انہیں ایک پرانے زمانے کا اور غیر مقبول سیاست دان سمجھتے تھے۔ لیکن یہ ان کی بصیرت تھی جو انہیں جرمنی کے خطرے کا قبل از وقت ادراک کروا رہی تھی اور وہ خاموشی سے اعداد و شمار اور جنگی رپورٹوں کا مطالعہ کرتے رہے۔

جب مئی 1940 میں فرانس کے زوال اور برطانوی فوج کی شکست کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا تو ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت پڑی جو شکست تسلیم کرنے کے بجائے جنگ کو آخری دم تک لڑنے کا عزم رکھتا ہو۔ اس وقت چرچل کی پچھلے دس سالوں کی وارننگز اور ان کی جنگی حکمت عملی کے بارے میں گہرا علم ان کی سب سے بڑی قسمت ثابت ہوا۔ قوم نے انہیں اس لیے قبول کیا کیونکہ صرف وہی اس بحران سے نمٹنے کے لیے فکری طور پر تیار تھے۔ ان کا وزیراعظم بننا محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ان کی مسلسل تیاری کا نتیجہ تھا۔

جنوبی افریقہ کے لیجنڈری رہنما نیلسن منڈیلا کی کہانی موقع کو ایک اخلاقی فتح میں بدلنے کی ایک عظیم مثال ہے۔ منڈیلا نے اپنی جوانی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ لیکن ان کی یہ طویل قید بعد میں ان کی سب سے بڑی طاقت اور بن گئی۔ جب 1990 کی دہائی میں نسل پرستی کا نظام کمزور پڑا اور جنوبی افریقہ کو ایک جمہوری مستقبل کی طرف بڑھنے کا موقع ملا تو دنیا کو ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو ملک کو انتقام کی آگ سے نکال کر مفاہمت کی راہ پر لا سکے۔

منڈیلا کی طویل قربانی، قید کے دوران ان کا پرسکون رویہ اور رہائی کے بعد ان کی تمام نسلی گروہوں کو معاف کر دینے کی آمادگی، انہیں اس تاریخی موقع کے لیے ایک آئیڈیل لیڈر بنا گئی۔ اگر وہ غصہ اور انتقام کی سیاست کرتے، تو ملک میں خانہ جنگی یقینی تھی، لیکن انہوں نے ذاتی تکلیف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کو جوڑنے کا سب سے مشکل راستہ اپنایا۔ ان کی ذاتی زندگی کا سب سے بڑا دکھ قومی اتحاد کے لیے سب سے بڑا ہتھیار بن گیا۔ انہوں نے اس سیاسی موقع کو استعمال کیا اور ملک کو خانہ جنگی سے بچا کر ایک تاریخی اخلاقی قیادت کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ موقع تھا جو ان کی ثابت قدمی اور تحمل کی بدولت "عظیم قسمت" بن گیا۔

امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن ایک اور نمایاں مثال ہیں جنہوں نے مسلسل ناکامیوں کے بعد سب سے بڑے قومی بحران کو اپنی زندگی کے سب سے بڑے موقع میں تبدیل کر لیا۔ لنکن کو اپنی ابتدائی سیاسی زندگی میں کئی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ وہ ایک سادہ آدمی تھے جو نچلی سطح پر اپنی بات کو منطقی دلائل سے پیش کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔ جب امریکہ میں غلامی کے مسئلے پر شدید تناؤ بڑھا اور ملک خانہ جنگی کی دہلیز پر آ کھڑا ہوا، تو ان کی اصول پسندی، دیانتداری اور ملک کو متحد رکھنے کی شدید خواہش نے انہیں قوم کا واحد قابل بھروسہ لیڈر بنا دیا۔ ان کے لیے صدارت صرف ایک سیاسی عہدہ نہیں تھا، بلکہ ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کا ایک موقق تھا۔ اگرچہ خانہ جنگی ایک بہت بڑی مصیبت تھی، لیکن لنکن نے اسے آئین میں غلامی کے خاتمے کو یقینی بنانے طور پر استعمال کیا اور بڑی حکمت عملی سے فوجی کامیابیوں کو سیاسی فیصلوں میں بدل دیا۔ ان کی انتھک محنت، حکمت عملی اور اخلاقی جرات نے ہی اس خوفناک بحران کو امریکی تاریخ کی سب سے بڑی اخلاقی فتح میں بدل دیا۔ ان کی "قسمت" دراصل ان کا وہ کردار تھا جو مسلسل چھوٹی ناکامیوں کے باوجود مضبوط ہوتا رہا۔

برطانیہ کی سابق وزیراعظم مرگریٹ تھیچر کی قیادت میں بھی موقع اور قسمت کا کھیل واضح ہے۔ 1970 کی دہائی میں جب برطانیہ شدید معاشی بحران، صنعتی ہڑتالوں اور یونینز کی طاقت سے کمزور ہو رہا تھا، تو قدامت پسند پارٹی کو ایک سخت اور غیر روایتی لیڈر کی ضرورت تھی۔ تھیچر کی سخت معاشی پالیسیوں اور یونینز کے ساتھ لڑائی نے انہیں متنازع بنا دیا، لیکن انہوں نے ملک کی کمزوری کو ایک کے طور پر دیکھا تاکہ ایک بنیاد پرست معاشی تبدیلی لائی جا سکے۔ 1982 میں جب ارجنٹائن نے فالک لینڈ جزائر پر حملہ کیا تو یہ ان کی قیادت کا سب سے بڑا امتحان بنا۔ جنگ کا یہ غیر متوقع واقعہ تھیچر کے لیے اپنے عزم اور جرات کو ثابت کرنے کا ایک بڑا موقع بن گیا۔ انہوں نے فوراً ایک ٹاسک فورس بھیجی اور جنگ جیت کر نہ صرف برطانوی فخر کو بحال کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ بھی مضبوط کی۔ یہ فوجی کامیابی ان کی سیاسی قسمت کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی اور اگلے کئی سالوں تک ان کی پالیسیوں کو تقویت ملی۔

عالمی رہنماؤں کی کہانیاں یہ سکھاتی ہیں کہ قسمت اور موقع ایک دوسرے سے جدا نہیں۔ موقع ایک دریا ہے جو بہہ رہا ہے، جبکہ قسمت وہ کشتی ہے جسے آپ نے اپنی محنت سے مضبوط کیا ہے۔ کامیابی کا فارمولا تین عناصر پر مشتمل بصیرت، جس سے موقع کو اس کے ظہور سے پہلے ہی پہچان لیا جاتا ہے (جیسے چرچل نے جنگ کو پہچانا) استقامت، یعنی مواقع کو حاصل کرنے کی لگاتار کوشش کرنا اور چھوٹی ناکامیوں سے نہ گھبرانا (جیسے لنکن نے شکست کے بعد بھی ہمت نہ ہاری) اور کردار جس کے ذریعے اپنے مواقع کو صرف ذاتی فائدے کے لیے نہیں، بلکہ قومی یا عالمی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے (جیسے منڈیلا نے مفاہمت کا راستہ اپنایا)۔ حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جو قسمت کا انتظار کرنے کے بجائے، اپنی محنت، تیاری اور کردار سے حالات کو ایسا بنا دے کہ "قسمت" اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz