Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Letter Gate Scandal

Letter Gate Scandal

لیٹر گیٹ سکینڈل

جس دن سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ہے اور اس کی جگہ نئی حکومت بنی ہے، سوشل میڈیاپر پاکستان تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی چھتری تلے جمع ہونے والی سیاسی جماعتوں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سر فہرست ہیں کے درمیان ایک مہماتی جنگ جاری ہے۔

ٹویٹر، فیس بک، یوٹیوب اور انسٹا گرام جیسے پلٹ فارمز پر تلخ جملوں، ہیش ٹیگ مہم اور ایک دوسرے کے خلاف سیاسی و غیر اخلاقی تابڑ توڑ حملے جاری ہیں جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ سیاست دانوں اور انکی نجی زندگی پر وار کیے جارہے ہیں۔ دونوں حریف سوشل میڈیائی ٹرائل اور کردار کشی ایسے کر رہے ہیں کہ جیسے یہ حق و باطل کی اصل جنگ ہو۔

ایسا کرنے سے دونوں فریقین کو محسوس ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ان سب کیلئے باعث ثواب ہے۔ انہی ڈیجیٹل فارمز پر صحافی برادری بھی منقسم ہے۔ اور تو اور اس جنگ میں ہمارے قومی اداروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور افواج پاکستان کو بھی ہٹ کیا گیا ہے۔

پی ڈی ایم کے محاذ پر اکٹھی ہونے والی سیاسی قیادت کا یہ موقف ہے کہ یہ ایک خالص جمہوری عمل ہے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے جس سے ملک کے مفادات اور سالمیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس پرسابق حکومت کی طر سے پہلے پہل تو کوئی سنجیدہ رد عمل نہ دکھائی دیا لیکن جیسے جیسے اس میں شدت آتی گئی تو پچھلی حکومت کی طرف سے خاصاسخت رد عمل ظا ہر ہونا شروع ہوا۔

تناؤ کی کیفیت بڑھی۔ سیاسی حرکات و سکنات میں شدت آئی۔ اپوزیشن اور حکومتی اراکین نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا فورمز پر مسلز دکھانے شروع کردیے۔ سابق حکومت کے ارکان کو خریدا گیا یا ان کے ضمیر جاگ گئے۔ جب قومی اسمبلی میں بات بنتی نہ نظر آئی تو اپوزیشن نے اعلیٰ عدلیہ کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ چیف جسٹس نے سوموٹو نوٹس لے لیا اور بلاآخر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی یا کرادی گئی۔ حکومت اقتدار کے ایوانوں سے نکل گئی۔

پاکستان تحریک انصاف کا موقف کا اس ساری حکومتی تبدیلی پرمختلف ہے۔ پہلا یہ کہ ان کی حکومت کسی کے (امریکہ) کے کہنے پر ختم کی گئی ہے۔ وہ اس کوسازش کا نام دیتے ہیں اوراس پر انکی ساری الیکشن کمپین چل رہی ہے۔ دوسرا یہ کہ انکی حکومت کو ختم نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا صرف اس لیے ہوا کیونکہ ان کے اراکین اور اتحادیوں کو باقاعدہ خریدا گیا ہے۔

ان کو خریدنے کیلئے ہارس ٹریڈنگ کی گئی اور ایم این ایز کو کروڑوں کی آفرز دی گئی۔ پنجاب میں علیم خان گروپ اور ترین گروپ حکومت سے علیحدہ ہوئے یا کیے گئے اور سند میں ایم کیو ایم کو حکومت سے شکایات یاد آگئی اور قیادت نے اپنی روایتی حریف پاکستان پیپلز پاڑتی سے ڈیل کرلی۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ ان کی حکومت کا خاتمہ اصل میں پاکستانیوں کی سزا دی گئی ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کا یہ کہنا ہے کہ انکے دور حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی درست سمت چل پڑی تھی اور پاکستان کا بیانیہ اپنا تشخص قائم کر رہا تھا۔ بین الاقوامی طور پر پاکستان کی اہمیت اور توقیر بڑھ رہی تھی۔ تیسرا تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کی وجہ ان کا دورہ روس اور چین سے بہتر ہوتے تعلقات تھے۔

اس سارے منظرنامے میں جو چیز چونکا دینے والی ہے وہ بیرونی سازش یا مداخلت ہے۔ نئی حکومت کے خلاف ٹرینڈ بھی اسی پر مبنی ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے فوری بعد سابق وزیر اعظم نے ایک خط /مراسلہ ایک جلسے میں اپنے خطاب کے دوران ہوا میں لہرا دیا۔ عوام کو گواہ بنا دیا کے انکے خلاف ایک سوچی سمجھی بیرونی سازش کی گئی ہے جس کے خلاف سارے پاکستانیوں کو ایک ہوجانا چاہیئے۔

ساتھ انہوں نے یہ نعرہ بھی لگا دیا کہ ہم کوئی غلام ہیں کہ جو آپ کہیں گے ہم کر لیں۔ اپنے عوامی جلسوں میں وہ یہ کھل کر کہتے دکھائی دیے کہ پاکستان کو حقیقی طور پر آزاد کروانا ہوگا تاکہ بیرونی مداخلت ختم ہو۔ ان کے اس بیانیے پر پورے پاکستان سے نوجوانوں نے کھل کر سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف عناصر اور خاص کر اس بیرونی سازشی عنصر کے خلاف یکجا ہوجانے کا عندیہ دیا۔

اگر ہم اس سازش یا مداخلت کو پاکستان کے ماضی میں دیکھنے اور موازنہ کی کوشش کریں تو ہمیں پاکستانی سیاست میں اس جیسی ملتی جلتی مثال ملے گی۔ پاکستان کےسول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت کے خاتمےکے پیچھے بھی یہی سازشی ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو جن کی حکومت مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بنی تھی وہ بھی اسی طرح اپنی حکومت کے خاتمے کے خلاف عوام میں ایسے ہی خط کا تذکرہ کرتے پائے جاتے تھے۔ ہواؤں کا رخ اس وقت تبدیل ہوا جب مسٹر بھٹو نے وقت سے پہلے ہی الیکشن کروانے کا اعلان کردیا۔ ان کو یہ لگا کہ چونکہ وہ عوام میں عمران خان کی طرح بڑے مقبول اور فیورٹ ہیں اور عوام انکو دو تہائی اکثریت سے دمنتخب کرلیں گے لہذا انہوں نےعام انتخاب کا انعقاد کروادیا۔ بھٹو کے خلاف بھی پی ڈی ایم کی طرز پر پی این اے کا اتحاد موجود تھا جو بھٹو کو کسی صورت اگلی مرتبہ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

انتخابات ہوئے، بھٹو بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو پی این اے نے انتخابی نتائج ماننے سے انکار کردیا۔ رد عمل کے طور پر انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔ عوامی سطح پر حکومت مخالف کم اور بھٹو مخالف مہم تیز کردی گئی۔ عوام کے گھروں میں بذریعہ ہاکرز بھٹو مخالف پمفلٹ پھینکے جاتے جس سے بھٹو مخالف جذبات بتدریج بڑھتے چلے گئے۔

جیسے آج سیاستد انوں کی نجی زندگی کی کردار کشی کی جارہی ہے بالکل ایسے ہی بھٹو پر سیکیولر، لادین ہونے اور غیر شرعی اعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا۔ عمران خان کی طرح بھٹو نے بھی اس تحریک کو پہلے سیریس نہ لیا تھا لیکن جب شدت آئی تو بھٹو کے بھی پسینے چھوٹنے لگے۔

ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی خط کو راوالپنڈی کی سٹرکوں پر لے آئے اور عوام کو بار بار بتاتے کہ ان کے خلاف ولائیتی ساز ش ہوئی ہے۔ اس سازش کی بنیاد وہ تین چیزوں پر رکھتے تھے۔ پہلی یہ کہ ان کو پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کے فیصلے کی سزا دی جارہی ہے۔ دوسری وجہ وہ یہ بتاتے کہ ان کا ویتنام کی جنگ کی مخالفت کرنے کے جرم میں یہ کیا گیا ہے۔ تیسری وجہ ان کے نزدیک یہ تھی کہ او آئی سی کی سربراہی کانفرس لاہو ر پاکستان میں بلانا تھی جس کی وجہ سے بیرونی قوت ان سے ناراض تھی۔

دونوں سازشیں ہمارےسامنے ہیں۔ ایک کا شکار بھٹو ہوئے اور دوسری کا عمران خان۔ پہلی ساش کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق آئے جنہوں نے عوام کو طویل آمریت کا تحفہ دیا اور پاکستانیوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی طرف جھونک دیا۔ اس سے پاکستان میں کلاشنکوف اور اوپیم کا کلچر ایسا پروان چڑھا جس کے اثرات آج بھی پائے جاتے ہیں دوسری طرف عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی سارا بوجھ عوام پر ہی آرہا ہے۔

ملک سری لنکا بننے جارہا ہے۔ رفتہ رفتہ مہنگائی کی شرح اتنی بڑھے گی کہ اسکو کم کرنے کیلئے ہر حکومت بیرونی امداد پر انحصار اور بڑھا دے گی۔ قرضہ اتارنے کیلئے بھی مزید قرضے لیے جائیں گے لیکن قومی خزانہ خالی ہوجائے گا۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin