Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Jamhoori Deemak

Jamhoori Deemak

جمہوری دیمک

پاکستان میں رائج جمہوری دور حکومت میں جس کا ماضی اور حال ہم سب کے سامنے سورج کی تپش اور روشنی کی طرح عیاں اور واضح ہے۔ ارض پاک میں رائج جمہوریت اور جمہوری حکومتوں میں بلاشبہ بندوں کو گنا تو کرتے ہیں لیکن تولا ہرگز نہیں کرتے۔ ایک آدمی جس کی عمر اٹھارہ سال ہو اور وہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو اس کا ایک ووٹ ہے۔ یہ ووٹ وہ عام انتخابات میں اپنی سمجھ بوجھ اور فکر کے مطابق اپنی پسندیدسیاسی جماعت کے امیدواران کے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔

یہی سیاسی جماعت اگر انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے توہ مرکز میں ایک جمہوری حکومت بنالیتی ہے اور ملک کے انتظام و انصرام اپنے منشور اور انہتائی صلاحیت سےچلاتی ہے۔ لیکن ووٹر صرف ووٹ ڈال سکتا ہے حقیقی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ کیونکہ اس کے ووٹ کی صرف گنتی ہوسکتی ہے معیارکی جانچ نہیں۔ ایک پڑھے لکھے اور ان پڑھ کےووٹ میں کوئی فرق نہیں۔

یوں تو جمہوریت کی دو اقسام ہیں، عددی جمہوریت اور حقیقی جمہوریت لیکن اگر غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ حقیقی جمہوریت پاکستان میں نہیں پائی جاتی۔ پاکستان کا حقیقی جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مملکت خداد میں موجود سیاسی جماعتیں بمعہ اپنے منشور کے حقیقی جمہوریت کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔ بد قسمتی سے حقیقی جمہوریت کا عکس اگر دیکھنا ہو تو ہمیں مغرب میں موجود ترقی یافتہ ممالک پر نظر دوڑانی ہوگی۔

ہم جیسے ممالک صرف عددی جمہوریت پر چل رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں پائی جانے والی سیاسی جماعتوں کا منشور ملک کی بہتری یا ترقی پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اپنے انفرادی اور خاص سیاسی مفادات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان مفادات کے حصول کے سلسلے میں وہ اپنی معاشی طاقت کا استعمال جی جان سے کرتی ہیں۔ انتخابات کے دوران ہر حربہ استعمال کیاجاتا ہے۔ ووٹر کو خرید بھی لیاجاتا ہے۔ ووٹر کی خواہشات چونکہ گلی محلےاور تھانے کچہری تک محدود ہوتی ہیں۔ لہذا انکے کام ادھر ہی نپٹا دیے جاتے ہیں۔

اگرایسی سیاسی جماعتیں انتخابات کو مینج کر کے جیت جائی اور حکومت بنالیں تو وہ ملک کے قریبا ہر ادارے پر بہت حد تک اثر انداز ہوتی ہیں۔ ملکی اداروں کو اپنے مفادات کے حصول میں خوب رگڑا جاتا ہے۔ پھر ملک میں موجود قوانین کو موم کی ناک کی طرح اپنے مفادات کے حصول کیلئے کسی بھی وقت موڑلیا جاتا ہے۔ اگر ایسےمفادات کے حصول میں رکاوٹ آجائے تو جمہوریت کے خطرے کا راگ الاپ دیا جاتا ہے۔

انتخابات کے بعد عام آدمی کی زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ اسے اپنی مدد آپ کے تحت ہی اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ہاں کبھی کبھار بڑے جلسے کرکے اسے عارضی طور پر بہلا یا جاتا ہے۔ میڈیا کو استعمال میں لاکر بار بار بتایا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے کچھ نہیں کیا اب موجودہ حکومت ملک کو صحیح راستے پر گامزن کررہی ہے۔ پچھلی حکومت کے منصوبوں میں ایسے نقائص نکالے جاتے ہیں کہ رائے عامہ ہموار کرلی جاتی ہے۔ ترقی کا گرااف نیچے اور سیاستدانوں کی ترقی کا گراف اوپر ہوجاتا ہے۔ آمریت میں بھی کچھ ایسا ہی ملا جلا رجحان پایا جاتاہے۔ ان دونوں طرز حکومت میں عملی طور کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ جمہوریت اور مارشل لاء سے عبارت ہے۔ آزادی کے بعد تھوڑی دیر کیلئے بلا آئین کے حکومت بعد میں طویل مارشل لاء پھر دوسرا مارشل لاء، پھر جمہوریت، پھر نیم مارشل لاء اور پھر جمہوریت پنپ رہی ہے۔ ان مارشل لا اور جموری ادوار میں ملک کی ترقی اور خوشخالی کی طرف جتنا دھیان دیا گیا وہ ہر ذی شعور پاکستانی بخوبی جان چکا ہے۔

عوام کو ا ن کے حقوق کے نام پر کئی طرح کے لالی پاپ دیے گئے۔ مثال کے طور پرجمہوری حکومتوں نے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے لگائے۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے مذہب کارڈ ایسا عمدہ طریقے سے کھیلا کہ سادہ لوح پاکستانیایسے نعروں کی گونج میں راحت محسوس کرنے لگ گیا لیکن عملا اسے کچھ بھی نہ ملا۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے پاکستان کو خود مختار بنانےکے لیے پاکستان کو غیر ملکی طاقتوں کے آگے بطور کسٹمر پیش کیا۔ پاکستان مکمل طور پر تو خود مختاری تو نہ ہوسکا مگر بین الاقوامی طور پر ایک دہشت گرد ملک کے طور پر بدنا ضرور ہوا۔

ملکی سالمیت اور خارجہ پالیسی کے فیصلے کہیں اور ہی کیے جاتے رہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہی اپنی درست سمت نہ بڑھ سکی۔ آمریت کے ادوار میں پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں خوب استعمال ہوا اور ہمارے آمروں نے جی حضوری کی پالیسی کو اپنایا لیکن عوام کو سرواوئیول کا لالی پاپ دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے ہمسایوں سے بھی لگائی بجھائی رکھی جس سے ہمارے اپنے ہی ملک کا امن ایک خواب بن رہ گیا۔

پاکستا ن کی قریبا ساری ہی سیاسی جماعتیں اپنے انوکھے منشور لیے جمہوریت کا چورن بھیچتی پھرتی ہیں۔ ایک سیاسی گروہ انفراسٹکچر اور ترقیاتی کاموں کے ذریعے اپنے کھوٹے سکے چلالیتا ہے تو دوسرا خالصتا جوڑتوڑ کی اور کھینچا تانی کی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔ ایک جماعت انتقامی سیاست پر یقین رکھتی ہے تو دوسری مفاہمت کی سیاست پر۔ غرض ایک کھچڑی پکی ہوئی ہے۔

آج کے جمہوری طرز حکومت کا عالم یہ ہے کہ ایک جماعت پنجاب کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے تو دوسری صرف سندھ تک محدود ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں دیگر صوبوں میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں علاقائی ہیں تو کچھ کی بنیاد تعصب پر ہے۔ ایک لبرل اور سیکولر زم پر یقین رکھتی ہے تو دوسری خالص قدامت پسند اور مذہب پرست ہے۔

پاکستان کو حقیقی جمہوری ملک بنانا ہے تو جمہوری اداروں میں ایسے افراد کو لانا ہوگا جو ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم سمجھیں۔ ایسے افراد کا نتخاب کریں جن کا صرف ماضی سیاسی نہ ہو بلکہ وہ کچھ کرنے کے اہل بھی ہوں۔ کثیر جماعتی نظام کی بجائے دو جماعتی نظام نافذ کر یں۔ معاشی اور خارجہ پالیسی کوبہتر منصوبہ بندی اور جدید تقاضوں کے ہم آہنگ کریں اور اس میں مزید تجربات نہ کریں۔

ملکی اداروں کو سیاست سے پاک کریں۔ احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست کو ختم کریں۔ ملکی دولت اور وسائل پر انحصار کریں نہ کہ ان کو اپنے ذاتی فائدے کےلیے استعمال کریں۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi